لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ ہمارا کام صرف انصاف کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پولیس ریفارمز کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں انہوں نے بروقت مقدمات درج نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ بروقت مقدمات کے اندراج کو یقینی بنایا جائے۔
چیف جسٹس نے عدالتوں میں اندراج مقدمہ کی درخواستوں کی تعداد بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ اندراج مقدمہ کے لیے درخواستیں بڑھنے سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ چکا ہے، جب بھی کوئی مسئلہ عوامی توجہ حاصل کرتا تو سوموٹو (ازخود نوٹس) کی توقع کی جاتی تھی لیکن ادارہ پہلے ہی متحرک ہو تو عدالت کو نوٹس لینے کی ضرورت نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام کی بار بار پیشی میرے نزدیک مناسب نہیں، پولیس یا کسی بھی شخصیت کی پیشی پر اس کا احترام ملحوظ رکھا جانا چاہیئے، چیف جسٹس بننے پر اولین ترجیح عدالتوں میں پیش ہونے والوں کے وقار کو برقرار رکھنا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی دن مداخلت کرے تو معاملہ الجھ جاتاہے، حکام اپنا کام ٹھیک کریں تو عدالتوں کو مداخلت کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کے لیے آخری عدالت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بطور چیف جسٹس پولیس، آئی ٹی اور عدلیہ میں اصلاحات کیں، انصاف کی فوری فراہمی کے لیے ماڈل کورٹس بنائیں، ماڈل کورٹس نے منشیات سے متعلق 24 ہزار کیس نمٹائے جب کہ مجسٹریٹ عدالتوں نے27 ہزار 469 مقدمات نمٹائے، 189 دنوں میں 18 اضلاع میں قتل کے تمام کیس نمٹادیے گئے ہیں اور 25 اضلاع میں منشیات کا کوئی کیس زیر سماعت نہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ جھوٹی گواہی کے سد باب کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے، جھوٹی گواہی پر تفتیشی افسر کو بھی ملزم بنایا جائے گا، یہ ممکن نہیں کہ تفتیشی افسر کو سچ کا پتہ نہ ہو، ہمارا کام انصاف کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے حصول کے لیے مزید 10 جرائم کرانا غلط ہے، حصول انصاف کے لیے جرم کا ارتکاب غلط ہے، عدالتوں کو بھی نظر آرہا ہوتا ہے کہ گواہ جھوٹا ہے، ہم اللہ کےاحکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس کے ہاں بھی جھوٹے ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ریٹائرڈ پولیس افسران نے پولیس اصلاحات کے لیے بہت کام کیا، بطور جج اور وکیل میرا پولیس کے ساتھ بہت اچھا تعلق رہا۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ تاثر جارہا ہے کہ ملک میں طاقتور اور کمزور لوگوں کے لیے الگ الگ قانون ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ انصاف دے کر اس ملک کو آزاد کرائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکی نظام عدل کاتاثر یہی ہے کہ یہاں طاقتور کے لیے ایک قانون ہے اور کمزور کے لیے دوسرا، عدلیہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرے، چیف جسٹس کھوسہ اور ان کے بعد آنے والے جسٹس گلزار ملک کو انصاف دے کر آزاد کریں، ماضی میں ایک چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے لیے دوسرے جج کو نوٹوں کے بریف کیس دے کر بھیجا گیا۔ سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کے لیئےفون پر فیصلے لکھوائے گئے ۔
اس کے جواب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ وزیراعظم طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں، جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری عدلیہ میں ایک خاموش انقلاب آگیا ہے۔ آج سےکچھ سال پہلے ججوں نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی التوا نہیں ہوگا، تین بینچ ایسے ہیں جہاں التوا کی درخواستیں نہیں لی جاتیں، 2009 سے پہلے کی عدلیہ سے ہمارا موازنہ نہ کریں، 2009 ایسا سال تھا جس کے بعد عدلیہ مختلف ہے‘۔