تحریر : انجینئر افتخار چودھری عامر مغل نے درست کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ علی ترین کی جگہ کوئی عام کارکن ہوتا تو نتائیج مختلف ہوتے اور ایک اور بات بھی سچ ہے کہ موروثیت تو ہم تب مانتے جب جہانگیر ترین جنرل سیکرٹری شپ کی سیٹ پر اپنے بیٹے کو دیتے۔در اصل کامیابی کے ہزار باپ ہوتے ہیں اور ناکمی یتیم رہتی ہے۔جہانگیر ترین کے سابقہ الیکشن کی کہانی کچھ اور تھی اور اب کے حالات انتہائی مختلف۔گرچہ پارٹی اس شکست کو آسانی سے ہضم نہیں کرے گی اور اس کے لئے وہ سوچ بچار میں مصروف ہے لیکن جتنے منہ اتنی بات۔کیا علی ترین کہیں گنے کی نظر تو نہیں ہو گیا؟یہ سوال پنڈی میں بیٹھے ایک پرنٹر کا ہے جو ہمارا پی ٹی آئی کا کونسلر بھی ہے اور وہاں کا زمیندار بھی۔کیا گنے کا ریٹ رگڑا لگا گیا اس کا کہنا تھا جہانگیر ترین کے ہزاروں ایکڑ کے کھیت ہیں اور اس بار گنے کے کاشتکاروں کا معاشی قتل ہوا ہے۔میری اطلاع کے مطابق ترین کی شوگر ملوں نے گنا خریدا اور حکومتی ریٹس سے بھی زیادہ پیمنٹ کی ۔یہ ایک ایسا سوال ہے اور ایسا نقطہ ہے کہ اس کی وضاحت ہر صورت میں ہونی چاہئے۔
ایک کالم نویس کی حیثیت سے میں سارا دن اس تلاش میں رہا کہ ہم ہارے کیسے؟یہ سیٹ تو گھر کی سیٹ سمجھی جاتی تھی کیا جہانگیر ترین کے سابقہ الیکشن کے بڑے ساتھی پیر رفیع،کانجو وغیرہ ان کے ساتھ کھڑے تھے؟کیا ان لوگوں نے اتحاد کر لیا کہ اگر یہ جوان جیت گیا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی الیکشن کی دوڑ سے دور ہوں گی؟کیا لوکل لوگوں کو عزت سے نہیں نوازا گیا؟کیا لوگوں نے باہر کے آنے والوں کو قبول نہیں کیا؟کسی نے کہا کہ جس دن جلسہ ہوا اس دن مقامی لوگوں کو سیکورٹی کے لوگوں نے دھکے دیے؟یہ سب سوالات ہین جنہیں دیکھا جانا چاہئے ۔مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے ٢٠٠٨ میں خان صاحب کے ساتھ میانوالی گیا راشد خان گاڑی چلا رہے تھے جب میانوالی آیا تو خان صاحب نے مجھے کہا افتخار تم اپنی گاڑی میں جائو یہاں اب لوکل لوگ سوار ہوں گے کوئی سلیم گل اور اس کے ساتھی سوار ہوئے جو میانوالی پی ٹی آئی کے ذمہ داران تھے۔خان انہیں عزت دینا چاہتے تھے میں دوسری گاڑی میں سوار ہو گیا جس میں شہزاد ناقش اور ایک آدھ دوست سوار تھے یہ یکم نومبر کی شام تھی۔مجھے آج ایسا لگا شائد مقامی لوگ اس بات پر ناراض ہو گئے ہوں کہ ہمیں اسٹیج پر کیوں نہیں بٹھایا گیا۔
سچ پوچھئے جو روز خان کے ساتھ ہوتے ہیں ہمارے جیسے لوگ جن کی خان سے ملاقات بھی ہوتی ہے انہیں موقع دینا چاہئے کہ وہ لیڈر کے ساتھ ان لوگوں کو بھی بیٹھنے دیں جو کبھی نہیں بیٹھے ۔عامر کیانی اور نوید افتخار کی یہ بہترین عادت ہے کہ وہ اپنے دوستوں ساتھیوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ تصویر بنا لیں اور یہ تصویر ایک کارکن کے لئے اعزاز ہوتی ہے۔ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔دیکھنا ہو گا کہ ہم کیوں ہارے۔جہاں تک بات ہے ہمت ہارنے کی اس دن پی ٹی آئی کا کرکن پیدا ہی نہیں ہوا جس دن بزدلی نے جنم لیا تھا۔مجھے یہ خوبصورت نوجوان کہتا نظر آیا جی میں کئی ہزار ووٹوں سے ہار گیا۔لوگ اسے ہار کہہ رہے ہیں اور میں بھی تو اسے ہار ہی کہہ رہا ہوں لیکن دوستو!یہ ہار پوری جنگ کی نہیں میں نے مورچہ ہارا ہے۔مجھ سے شکست گلے لگی ہے لیکن میں نے بھی اس کے کان میں کہہ دیا ہے کہ میں پھر آئوں گا۔
کیا ہوا کہ میں اس جاری جنگ کے مورچے کو ہارا ہوں۔مجھے اس شکست کی ذمہ داری کسی پر نہین ڈالنی میرے حلقے کے ہزاروں لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا میں اکیلا یہ جنگ لڑ رہا تھا میرا باپ اور پی ٹی آئی میرے ساتھ تھی لیکن ہماری بندوقوں میں کالی کارتوس تھے اس میں جھوٹے وعدوں کی گولیاں نہیں تھیں اس میں سچ تھا اور سچ اس منڈی میں نہیں بکا۔ایک طرف وفاقی حکومت تھی جس نے نوٹوں کی بوریاں کھول دیں اور دوسری جانب میڈیا گروپ کے جن تھے جو میری عمر کو سامنے رکھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔مجھے اپنے لوگوں سے پیار ہے اور یہ پیار اس دھند میں کھو کر رہ گیا۔لوگوں کو نوکریوں کے خط ہاتھوں میں تھمائے گئے انتظامیہ نے حکومت کا مکمل ساتھ دیا۔وفاقی حکومت ایک طرف صوبائی حکومت دوسری جانب الیکٹرانک میڈیا کی چیختی چنگاڑتی آوازیں۔الیکشن کیا ہارا ہمت ہی ہار بیٹھے مجھے اور کسی بات کا دکھ نہیں دکھ صرف اس بات کا ہے کہ یہ سر پھٹول کیسی کیا ایسے موقعوں پر دست و گریباں ہوا جاتا ہے یا سر جوڑ کر بیٹھ کر معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔
قاریئن کرام بات تو سچ ہے کہ اس وقت دل گرفتگی کے عالم میں ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا ہے بات سمجھنے کی ہے اور سوچنے کی ہے عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کارکنان کو حوصلہ دیا ہے اور کہا ہے کہ صفیں درست کرو اور اگلے الیکشن کی تیااری کرو ہے بھی بات ٹھیک کیا کسی نے عمران خان سے زیادہ جد و جہد کی ہے کیا کسی کی سیاسی زندگی کا دائو اس سے بڑھ کر کسی کا لگا ہے؟جب وہ دل گرفتہ نہیں تو آپ کیوں ہم کیوں؟میرے حساب سے اس وقت وہی کارکن سچا اور اصلی ہے جو ڈٹ جائے جو اپنے قائد کے ویزن کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔اور اس کا ویزن کیا ہے ہمت پکڑو۔ہ اپنی زندگی کتنی ہاریں دیکھتے ہیں ایک بار الیکشن لڑا ایک ہزار ووٹوں میں مجھے پچاس ووٹ ملے۔میں اپنی ایئر پورٹ سوسائٹی کا انتحاب لڑ رہا تھا مقابلے میں کھوکھر گروپ تھا گھر آیا تو بیٹی رو رہی تھی میں نے گلے سے لگاتے ہوئے کہا یہ کافی نہیں ہے کہ تیرا باپ جہلاء کے سامنے ڈٹا رہا اور وہ وقت بھی آیا کہ میں صرف سات ووٹوں سے ہارا ان میں جعلی ڈیڑھ سو تھے بعد میں میرا بھانجہ جیتا۔میں تو کبھی نہیں گھبراتا۔
ویسے بھی شہزاد احمد کا شعر ہے شہر کا شہر جو آ جائے بھی سمجھانے کو اس سے کیا فرق پڑے گا تیرے دیوانے کو مجھے تو علی ترین یہ کہتا نظر آتا ہے
موروثی سیاست کا طعنہ گویا میرا باپ دادا چچا بیوی داماد اسمبلی میں تھے اور میں ان کے بعد جا رہا تھا۔ ۔یہ سومنات ٹوٹ کے رہے گا اللہ نے ہمت دی اور کوششیں قبول ہوئیں تو اسی لاکھ کے قریب لوگو! فتح کی نوید لئے پھر حاضر ہوں گا۔کیا ہوا جو میں ہار گیا ؟میں اسے جنگ میں شکست تسلیم نہیں کرتا مجھے اس ہار کو ایک نئی سمت سے دیکھنا ہے میں اسے ایک مورچے کی شکست کہہ سکتا ہوں یہ بڑے ووٹ تھے مرکزی حکومت صوبائی حکومت ضلعی حکومت کورٹ کچہری تھانے کھاد کی سیاست کرنے والو۔تم سارے ایک طرف تھے اور میں اکیلا ایک طرف۔
جشن مقتل جب بھی سجا قرعہ ء فال میرے نام کا اکثر نکلا تو وہیں ہار گیا اے میرے بزدل دشمن مجھ اکیلے کے مقابل تیرا لشکر نکلا