تحریر : شیخ خالد زاہد یکم مئی مزدوروں کا “عالمی دن” گزرچکا ہے، ایک مزدور کو موقع ملا تو اسنے آج ہی مزدوروں یعنی اپنا عالمی دن منانے کا سوچ لیا ہے۔ لکھاری بھی مزدوری کرتے ہیں انکا اوزار “قلم” ہوتا ہے اور یہ اس قلم سے مزدوری کرتے ہیں، اور یہ مزدوری بلامعاوضہ ہوتی ہے۔ یکم مئی چھٹی کا دن تھا کسی کام سے باہر نکلنا ہوا تو دیکھا کہ سڑک کے کنارے روزانہ کی بنیاد (دھیاڑی) پر کام کرنے والے مزدوروں کی ایک طویل قطار دھوپ کی تمازت اوڑھے ہر آنے جانے والے کی جانب بہت امید سے دیکھ رہے تھے۔ یہ مزدور کسی بھی چھٹی سے مبرا ہوتے ہیں کیونکہ ان کے گھر کا چولا ان کی روزانہ کی مزدوری سے ملنے والی رقم سے جلتا ہے۔ ہمارے صاحبزادے نے جو ابھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں سوالات ہی سوالات دماغ میں پکتے رہتے ہیں، ایک سوال موقع کی مناسبت سے کر ڈالا اور پوچھنے لگے کہ آج تو مزدوروں کا عالمی دن ہے تو یہ مزدور کیوں چھٹی نہیں منا رہے؟ میرے پاس اس معصوم سے سوال کا کوئی سادہ سا جواب نہیں تھا کیوں کہ جو جواب میرے پاس تھا وہ اس بچے کی سمجھ سے شائد بالا تر تھا۔ کیونکہ ہم ان سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ بیٹا اگر یہ چھٹی کر لینگے تو انکے گھر کھانا پکنا مشکل ہوجائے گا، کسی کی دوائی آنا مشکل ہو جائے، گی کسی کی فیس بھرنے سے رہ جائے گی، اور ایسی بہت ساری چیزیں پوری کرنا مشکل ہوجائینگی پھراس مزدور کو ان مسائل سے چھٹکارا پانے کیلئے کہیں خودکشی نا کرنی پڑجائے۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہ بہت تیزی سے اپنا ردِعمل ظاہر کرتا ہے (ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں)، بہت چھوٹے چھوٹے واقعات بے ہنگم اور نا تھمنے والے ٹریفک کی وجہ سے رونما ہوتے نظر آتے رہتے ہیں کبھی ہم خود بھی ان واقعات میں بلواسطہ یا بلاواسطو ملوث ہوجاتے ہیں، آپ کی ذرا سی غلطی آپ کہ لیئے انتہائی قرب ناک واقعہ بن کر ابھرسکتی ہے اور تمام کا تمام مجمع آپ پر تشدد کرنے کیلئے تیار نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری (قومی)جذباتی طبعیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہماری اس طبعیت کی بھی باقاعدہ تربیت کی گئی ہے، ہمارے جذباتی ہونے سے سیاست دانوں کو بھرپور فائدہ پہنچتا ہے۔ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم محکوم ہیں اور غلامی کی زندگی گزارنے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں۔ محنت مشقت کر کے اپنی زندگیاں بسر کرنے والے مزدوروں کو اس عالمی دن سے کیا لینا دینا ہے اور پھر اس دن کو یاد رکھنے سے ان مزدوروں کو کیا مل جاتا ہے، یہ تو اسی طرح روز صبح سویرے پرندوں کی طرح اپنے اپنے روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور کبھی کہیں اور کبھی کہیں اپنی محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کیلئے زندگی کو گزارنے کا انتظام کرتے ہیں۔
یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طو ر پر منایا جاتا ہے، اس دن کو مزدوروں کیلئے خاص بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ یا تو انکے ساتھ وہاں سڑک پر جا کر بیٹھا جائے اور کم از کم اس احساس کو محسوس کرنے کی کوشش کی جائے جو ہمارے مزدور بھائی آتی جاتی گاڑیوں کی طرف اپنے آپ کو متوجہ کرنے کی کوشش میں دیکھتے رہتے ہیں اور وقت کہ گزرنے کے ساتھ ساتھ انکے چہرے بھی سورج کی طرح مدہم ہوتے جاتے۔ اس دن کی مناسبت سے بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے پروگرام ترتیب دیتے ہیں سماجی میڈیا پر بھرپور تشہیر کرتے ہیں مزدوروں پر ہونے والے مظالم اور حق تلفیوں پر مباحثے بھی کرتے ہیں (جس میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہوتا ہے) اور اپنی ہمدردانا احساسات کا بھی تذکرہ کرتے ہیں ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے دنیا میں پذیرائی ملے اور لوگ کہیں واہ بھئی کیا بات ہے۔
مگر یومِ مئی ان مزدوروں کیلئے کچھ بھی خاص نہیں ان کی نظر میں یہ دن ایک عام دن سے بھی کچھ کم اہمیت کا دن ہوتا ہے۔ اس دن کو انکے لئے اہم بنانا ہے تو کم از کم یکم مئی کو مزدوری کرنے والے کی دھاڑی دوگنی کر کہ دیں اور ساتھ ہی کسی خاص غذاء سے اسکی تواضح کریں تاکہ اسے احساس ہو کہ واقعی اسکی سال بھر کی محنت و مشقت کا اس دن کچھ نا کچھ تو صلہ ملتا ہے اور واقعی ہماری محنت رائیگاں ہے۔