اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے تمام دیرینہ تنازعات کا پرامن حل ناگزیر ہے۔
یہ بات انھوں نے بدھ کو اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
نواز شریف نے اس کانفرنس میں شریک پاکستانی سفیروں سے خطاب میں کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے تاہم اسے ہماری کمزور ی نہ سمجھی جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان عدم پالیسی پر یقین رکھتے ہوئے دوسرے ممالک کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک بہتر ملک ہے۔
مسئلہ کشمیر کے بارے میں نواز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق دیرینہ تنازع کا حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے۔
انھوں نے سفیروں کو ہدایت کی کہ وہ دنیا کو اس بات سے آگاہ کریں کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ افغانستان کے بارے میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کوششوں کی حمایت کرتا رہے گا۔
تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی صحیح سمت میں اور پہلے سے زیادہ موثر ہوئی ہے۔
’اس کانفرنس کے اختتام پر جو تجاویز ہمارے پاس آئی ہیں اُن میں پچھلے تین سالوں میں ہماری کامیابیاں اور آنے والے دو سالوں کے لیے وہ چیلنجز ہیں جن سے ہمیں نمٹنا چاہیے۔ لیکن ہماری تین سالہ کارکردگی کو جب ہم نے جانچا تو معلوم ہوا کہ میڈیا میں ہمارے بارے میں جو رائے قائم کی جا رہی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
درحقیقت ہم اب پہلے سے زیادہ دوسرے ممالک سے مربوط اور زیادہ خود مختار ہیں۔‘ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اکثر سیاسی حکومتوں کا خارجہ پالیسی میں کوئی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ ہمسایہ ممالک سے لے کر امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں فوج کا اہم کردار ہوتا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس تین روزہ کانفرنس کے ثمرات اس کے ہمسائے ممالک سمیت پوری دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی صورت میں نکلیں گے لیکن مبصرین کے خیال میں جب تک خارجہ پالیسی مکمل طور پر سیاسی حکومتوں کے سپرد نہیں کی جاتی، کہیں پر بھی پاکستان کے تعلقات میں مثبت پیش رفت نہیں ہوسکتی۔