تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال پاکستانی قوم کی بد قسمتی دیکھیں کہ اسے اول تو مخلص، ایماندار، ذمہ دار، محب وطن لیڈر ہی نہیں ملے اور اگر ملے بھی تو اس نے ان کی جب تک وہ زندہ رہے قدر نہیں کی مرنے کے بعد ان کی قدر ہوئی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مردہ قوم ہے اور مردہ پرست قوم ہے۔
پاکستان کی عوام کو قوم کہنا ہی درست نہیں ہے، یہ ایک بے سمت ہجوم ہے ۔اس کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ جس نظریہ پر اس قوم نے جب وہ ایک قوم تھی الگ ملک حاصل کیا تھا، آج اس نظریہ پر کیچڑ اچھالنے والوں کو دانش ور کہا جاتا ہے۔انہیں اس کار خیر کے لیے ٹی وی کے پروگرامز میں بلایا جاتا ہے۔ہماری عوام کے عقل و شعور کا اندازہ اس ایک بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم کے بدمعاش ہیرو ہوتے ہیں اور وہ جن کے کاروبار ،رہائش ،اولاد بیرون ملک ہو انہیں یہ عوام ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیج دیتی ہے۔ وہ ملک کے حکمران ہوتے ہیں۔
ہماری قوم (لفظ قوم سے معذرت کے ساتھ )اپنے لیڈروں کی تمام تر بد اعمالیوں کو جاننے کے باوجود ان پر (اپنے مفادات،خوف،لالچ یا کسی بھی اور وجہ سے)اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔عوام کو ہمیشہ نعرہ لگا کر کبھی مذہب کے نام پر ،کبھی لبرل ازم کے نام پر ،کبھی پاکستان کے نام پر ،کبھی روشن خیالی کے نام پر، کبھی ریاست اور سیاست کا نعرہ لگا کر ،کبھی جمہوریت یا آمریت سے ڈرا کر۔کبھی خلافت کے لیے اور کبھی انقلاب سبز ،نیلے پیلے کے لیے۔کبھی نئے یا پرانے پاکستان کے لیے ،کبھی خوشحال پاکستان کے لیے بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ ایسا اتنی بار ہوا۔اب تک ہو رہا ہے۔نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔
Pakistani Political Parties
جب تک عوام کو ان کی پہچان ہوتی ہے، وہ اس دنیا سے جا چکے ہوتے ہیںیا اس ملک سے اپنے ملک جا چکے ہوتے ہیں ۔ویسے پہچان بھی کہاں ہوتی ہے وہی لیڈر رنگ ڈھنگ ،انداز بدل کر یا اس کی اولاد جال بدل کر واپس آتے ہیں ہم عوام انہیں نجات دہندہ سمجھ کر سر پر بیٹھاتے ہیں ۔ان کے لیے ہڑتال کرتے ہیں ۔چھتر ،ڈانگ ،آنسو گیس سہتے ہیں اور جب آنکھ کھلتی ہے تو پیا جانے کس دیس جا چکے ہوتے ہیں۔ہمارے لیڈروں کی اکثریت کے ظاہر و باطن ،قول و فعل میں تضاد ہی نہیں منافقت بھری ہوئی ہے اور ان کو اپنے مفادات ہی سے مطلب ہے۔
عوام کے عقل و شعور کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے جس کے اصلی ،سچے ،دنیا کے سب سے بڑے لیڈر ،جس قوم کے رہبر ، رسول ۖ نے فرمایا ہو کہ آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو ،مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا،سود اللہ سے جنگ ہے ،مسلمان جھوٹ نہیں بول نہیں سکتا ۔جس کا وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔یہ اور ایسی بے شمار احادیث ہونے کے باوجود اور سب کا سب کو ان کا علم ہونے کے باوجود ہم عوام ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔
ایک سوراخ سے کئی بار ڈسے جا چکے ہیں ،سودی معشیت میں رہ کر اللہ سے جنگ کر رہے ،اور جھوٹ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے وعدوں کی اہمیت نہیں کہ اس بارے میں پوچھا جائے گا ،اور اللہ کے اس واضح فرمان کہ جو جس کی کوشش کرتا ہے اسے وہی ملتا ہے اللہ کسی کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت بدلنے کی جدوجہد نہ کرے اگر وہ جد و جہد کر ے تو اللہ نے راستے کھول دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور اس میں اتحاد بھی ایک شرط ہے۔
Pakistan Democracy
اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں۔ کوئی جماعت پہلے اسلامی نظام کا نعرہ لگاتی رہے۔انقلاب کا نعرہ لگاتی رہے۔اس کا جب دل چاہئے جمہوریت کی سپورٹ کرنا شروع کر دے۔عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔عوام کی بیداری کا عالم یہ ہے کہ کئی ایک جماعتیں، لیگوں، پارٹیوں کی ایک ایک صوبے میں تیس تیس سال حکومت بھی رہی ہو اور وہ کہے ہم کو وقت نہیں ملا ،ہمیں کام کرنے نہیں دیا گیا۔
اب ہم عوامی فلاح کے منصوبے شروع کر دیں گے۔یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ملک کو سیدھی راہ پر ڈال دیں گے۔اب ترقی کا سفر شروع کر دیں گے۔کام کرنے عوامی فلاح کے منصوبے شروع کرنے کاہماری اگلی نسل کو بھی حکومت کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ آپ کی اچھے طریقے سے” خدمت” کر سکے۔
عوام کی ایک بہت بڑی تعداد بھیڑ بکریوں کی طرح ان کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو۔ یہ ہے عوام کو ملنے والا شعور یہ ہے عوام جس کو اصرار ہے کہ اسے قوم کہا جائے، یہ ہی نہیں دنیا کی سب سے بہترین قوم کہا جائے، جس کا کوئی وژن ہی نہیں ہے، کوئی اصول ہی نہیں ہے، جس کے پاس اچھائی اور برائی ناپنے کا پیمانہ (قرآن و حدیث )ہونے کے باوجود وہ ابھی تک اپنی سمت طے نہ کر سکے۔
میرے ملک کے حکمرانوں، سیاست دانوں، دانشوروں،نقادوں، صحافیوں ٹی وی اینکر ز تم کو اللہ کا واسطہ جھوٹ کے پردوں میں سچ کو نہ چھپائو۔اپنی نسل کے لیے،اس ملک کے لیے ،اسلام کے لیے اور سب سے بڑھ کر اپنی آخرت کے لیے سچ بولیں، سچ کا ساتھ دیں، سچ لکھیں۔اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے (اور توفیق کوشش سے ملتی ہے )۔