تحریر: چوہدری غلام غوث گولڈا مائیر ” مدر آف اسرائیل ” تھی اسے اسرائیل کی پہلی منسٹر لیبر، دوسری وزیر خارجہ اور پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل تھاـ اسرائیل کو اسرائیل بنانے میں اس کا نوے فیصد ہاتھ تھا ہالی ووڈ نے ” مدر آف اسرائیل ”پر ایک بڑی خوبصورت فلم تخلیق کی اس فلم کے آخری سین میں گولڈا مائیر سے سوال کیا جاتا ہے کہ اس خطے میں امن و امان کب پیدا ہو گا تو وہ جمال عبدالناصر سے کہتی ہے ” جب تک عرب اپنے بچوں سے اتنا پیار نہیں کرتے جتنا وہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں تب تک اس خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
یہی گولڈا مائیر جب اسرائیل کی وزیر اعظم تھیں تو ان کو اطلاع دی گئی کہ امریکی سینیٹر ایک اہم کام کے سلسلہ میں ان سے ملاقات کا خواہشمند ہے تو اس وقت وزیر اعظم اپنے گھر کے کچن میں کھانا تیار کرنے میں مصروف تھیں چنانچہ سینیٹر کو کچن میں ہی بلا لیا گیا ایک چھوٹی میز اور کرسی وہاں رکھ دی گئی اور وہ خود چولہے پر چائے رکھنے کے بعد سینیٹر کے پاس آ بیٹھی یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب 1973 ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اور اس اہم موقع پر امریکی سینیٹر اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کر رہا تھا اس وقت کچن میں بیٹھے ہی اسلحہ خریدنے کا دنیا کا سب سے بڑا سودا طے پایا دراصل امریکی سینیٹر اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔
اس ملاقات میں گولڈا مائیر نے خود چائے تیار کر کے امریکی سینیٹر کو پیش کی اور اسی دوران توپوں ، ٹینکوں ، طیاروں اور میزائیلوں کا سودا طے ہو گیا ـ مختصر وقت میں گفت و شنید سمیت تمام شرائط اور قیمتیں طے کر لی گئیں ـ وزیر اعظم نے چائے کی پیالیاں سمیٹ کر سینیٹر سے کہا یہ سودا مجھے منظور ہے مگر رسمی طور پر آپ اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیں تاکہ اس معاہدے کو تحریری شکل دے دی جائے ـ یاد رکھیں اس وقت اسرائیل سخت اقتصادی بحران کا شکار تھا ـاس سودے کے بعد اسرائیلی کابینہ نے اس معاہدے کی توثیق سے انکار کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ اس سودے کے بعد اسرائیلیوں کو برسوں تک صرف ایک وقت کے کھانے پر انحصار کرنا پڑے گا اسرائیل کی اقتصادیات اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے اوراس سودے سے اس کی حالت مزید ابتر ہو جائے گیـ
Israel
وزیر اعظم نے کابینہ کا موقف سنا اور پختہ عزم کے ساتھ کہا آپ کا اندیشہ درست ہے مگر جب ہم جنگ جیت جاتے ہیں اور عربوں کو شکست فاش دے دیتے ہیں تو تاریخ ہمیںفاتح قرار دے دے گی اور جب تاریخ کسی کو فاتح قرار دے دے تو یہ بھول جاتی ہے کہ اس نے جنگ کے دوران کتنی بار گوشت ، کتنی بار مکھن اور کتنی بار شہد روزانہ کھایا تھا ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے بوٹوں میں تسمے تھے یا نہیں فاتح صرف فاتح ہوتا ہے اور دنیا صرف فاتح کو جانتی ہے ـ وزیر اعظم کی بات میں وزن تھا لہذا کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینی پڑی اور آگے چل کر جنگ ہوئی اور تمام عرب ایک ضعیف العمر خاتون سے جنگ ہار گئے ـ جنگ کے کافی عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے ایک نمائندے نے ان کا انٹرویو کیا اور سوال کر دیا کہ امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے جو دلیل آپ کے ذہن میں آئی تھی وہ فوری آئی تھی یا پہلے سے اس کی حکمت عملی تیار کر رکھی تھیـ
گولڈامائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا ہے وہ بولی زمانہ طالب علمی میں میرا پسندیدہ مضمون مذاہب کا تقابلی جائزہ تھا اور انہی دنوں میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا میں نے پڑھا کہ جب آپۖ کا وصال ہوا تو آپ کے گھر میں اتنی رقم بھی نہ تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے لہذا ان کی اہلیہ ام المومینین حضرت عائشہ نے ان کی زرہ رہن رکھ کر تیل خریدا میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی مفلوک الحال اقتصادی حالت کو جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں یہ بات ساری دنیا جاتی ہے لہذا میںنے سوچا بھوکے رہ لیں گے خیموں میں زندگیاں گزار لیں گے مگر اسلحہ خرید کر خود کو فاتح کا اعزاز پانے والوں میں شامل کریں گےـ
Weapons
یہ واقع ہگولڈا مائیر نے رپورٹر سے آف دی ریکارڈ رکھنے کی استدعا کی تھی جو کہ اس نے گولڈامائیر کے انتقال کے بعد بطور انکشاف شائع کیا ـ قارئین کرام اس کہانی میں تین باتیں توجہ طلب ہیں پہلی بات اسرائیلی وزیر اعظم کی سادگی اور پروٹوکول کے بغیر ملاقات اور اس ملاقات میں اسرائیل کی تاریخ کا اسلحہ خریدنے کا سب سے بڑا معاہدہ اسی تناظر میں ہم اپنے حکمرانوں کا طرز حکمرانی دیکھیں اور بیش بہا پروٹوکول اور اس پر اٹھنے والے لا محدود اخراجات اور بے دریغ قومی وسائل کا ضیاع اور خصوصاً اگر کوئی امریکی عہدیدار دورے پر آ جائے تو کیا کچھ نہیں ہوتا اُف خدا کی پناہ جبکہ ہمارا دین ہمیں سادگی کا سبق دیتا ہے ہمارے نبی رحمت تو تمام وفود سے ملاقاتیں مسجد نبوی کے فرش پر بیٹھ کر فرما لیتے تھے۔
دوسری بات ہمارے حکمرانوں کو حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کی توفیق ہی نہیں ہوتی جس سے وہ اسلام کا اقتصادی اور معاشرتی نظام اور عنان حکمرانی سمجھ سکیں جبکہ غیر مسلم اسلام اور قرآن کا مطالعہ کر کے اس کے سنہری اصولوں کو اپناتے نظر آتے ہیں ـ تیسری بات حکمرانوں کا ویژنری ہونا ہے اور دور اندیشی سے کام لے کر آنے والے دنوں کی تیاری کرنا ہے تاکہ حالات کا مقابلہ کر کے مملکت اور پوری قوم کا بھر پور دفاع کیا جا سکے۔
اسلام تلوار کے زور پر نہیں محبت اور امن کے فروغ پر پھیلا ہے ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایمانداری ، سچائی اور سادگی اپنائیں ، کرپشن ، جھوٹ اقربا پروری اور عہدوں کے اختیارات کا ناجائز استعمال ختم کریں اور اسلامی تعلیمات کو عملی طو رپر اپنا کر ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنا کر اقوام دنیا میں اس کا نام روشن کریں جو کہ ملکی بقاء اور سلامتی کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے اب صرف کھوکھلے نعروں سے بات نہیں بنے گیـ