تحریر: سرفراز عالم دنیا کے مشکل ترین سماجی کاموں میں سے ایک اہم ترین کام بچوں کی تربیت ہے۔ عام طورسے لوگ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا کر سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں تربیت یافتہ بھی کردیا جو ایک بہت بڑی بھول ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے تمام تعلیم یافتہ لوگ اچھے انسان بھی ہو تے ۔ بد قسمتی سے دنیا کے بڑے بڑے گناہ کے کاموں کے سر غنہ اکثر تعلیم یافتہ لوگ ہی ہو تے ہیں ۔ تربیت اور تعلیم میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔تعلیم صرف پڑھنے سمجھنے کا عمل ہے جب کہ تربیت حاصل کیے گیے علم کو برتنے کا عمل ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اﷲ صرف قرآن نازل کردیتا تو کیا امت مسلمہ کی تربیت ہوجاتی؟ ہرگز نہیں بلکہ قرآن کو عملی نمونہ بنا کر آپ ۖ نے صحابہ کرام کی تر بیت کی تب جا کر نبوت کے فرائض انجام تک پہنچے ۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کی تربیت ایک انبیائی مشن ہے۔ بچوں کی تربیت کے عام طورسے تین گہوارے ہو سکتے ہیں ۔ ایک بچے کا اپنا گھر جہاں والدین کی شکل میں اس کے نگراں ان کی تر بیت کرتے ہیں ۔ دوسرا درسگاہ یا اسکول کی جہاں اسا تذۂ کرام کی نگرانی ہوتی ہے اور تیسرا سماج جہاں ہر طرح کے لوگوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔ اب آیئے تینوں گہواروں کو الگ الگ ان کی ذمہ داریوں کے تحت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلا گہوارہ: بچے کی پہلی تربیت گاہ اُس کا اپنا گھر ہوتا ہے جہاں ماںباپ کی شکل میں اس کی زندگی کو تراشنے کے لیے دو بہترین کاریگر اﷲ نے دیے ہیں ۔ یہیں اُس کی زندگی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور بنیاد کی حیثیت ایک عمارت کے لیے کیا ہوتی ہے اس کو ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ بچوں کی تربیت در اصل اُس کی پیدا ئش سے پہلے ہی شروع ہو جا تی ہے جب ان کے والدین رشتہ ازدواج میں بندھ جا تے ہیں ۔ ان دونوں کو یہ دیکھنا ہے کہ ان کے تعلقات جسمانی اور روحانی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بن سکے ہیں کہ نہیں ۔ کیا ان دونوں کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے ہوئی ہے؟ اگر ہاں تو یہیں سے ان کے بچوں کی تربیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ماں کے پیٹ میں پَل رہے بچے کی پرورش حلال طریقے سے ہونی چا ہیے ۔ پیدا ئش کے بعد بچہ سب سے پہلے ماں کی گود میں سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ بچہ تعلیم سے پہلے تربیت کا طلب گار ہو تا ہے۔ ماں اُسے جوبتاتی ہے وہ سیکھتا جاتا ہے۔ ریسرچ سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ایک انسان اپنے بچپن کے دنوں میں جتنا تیزی سے سیکھتا ہے اتنا زندگی کے کسی دور میں نہیں سیکھتاہے۔ اسی لیے ایک بچہ بچپن کی مدت میں جو سیکھتا ہے وہی اس کی تربیت میں میل کا پتھر بن جاتا ہے۔
Muslim Mother and Son
شاید اسی لیے ماں کی گود کو پہلا اسکول کہاجاتا ہے۔ والدین کی نگرانی میں تربیت کی اہمیت اور ان کی ذمہ داری کا اندازہ ایک حدیث سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں آپ نے فرمایا کہ ” ہر بچہ فطرت اسلام پر پید ا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔” ]صحیح بخاری وصحیح مسلم[ آج کل مرد اور عورت دونوں کومل کر کمانے کی ایسی بیماری ڈال دی گئی ہے کہ بغیر حلال و حرام کی تمیز کے دولت کمانے کی ہوڑ لگ گئی ہے جس کا سیدھا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ دوسری بڑی غلطی یہ ہو رہی ہے کہ والد پیسہ کماکر بچوں کی ماں کے حوالے کردیتے ہیں اور خود گھر سے بے پروا ہو جا تے ہیں اور بچے ماں سے نہ ڈرنے کی وجہ کر بے لگام ہو جاتے ہیں۔ یادرہے کہ ایسی حالت میں بچوںکے بگڑنے کی پوری ذمہ داری والد کی ہوتی ہے۔ اس طرح بچوں کی تربیت کا سب سے بہترین ذریعہ لوگ دولت کو ہی سمجھنے لگے ہیں۔ ایک بچے کے لیے سب سے بہترین نمونہ اُس کے ماں باپ ہوتے ہیں ۔ اس لیے ماں باپ کو ہر اُن بری باتوں سے اور بُری عادتوں سے پرہیز کرنا چا ہیے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور جس کا اثر بچے کی تر بیت پر پڑتا ہے۔ ماں باپ کو اپنے تعلقات اچھے رکھنے چا ہیے اس لیے کہ بچہ بغیر بتا ئے ماں باپ سے اچھی یا بری باتیں سیکھ جاتا ہے۔
آخری مگر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اولاد صرف نسل چلا نے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اولاد کی تربیت سے والدین کی جنت اور جہنم بھی جُڑی ہو ئی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ہرانسان اپنے زیر نگراں لوگوں کا ذمہ دار ہے اور اس کے بارے میں قیامت میںاُس سے سوال پوچھا جا ئے گا۔ اس لیے ایسے والدین جو بچوں کو اﷲ کا دیا ہوا بہترین عطیہ سمجھتے ہیں ،اُس کی خوب اچھی طرح تربیت کرکے ایک بہترین انسان بناتے ہیں وہ بے شک اﷲ کے پسندیدہ والدین سمجھے جائیں گے اور آخرت میں سرخروہوں گے ،ان شاء اﷲ۔ بچوں کی اچھی تربیت اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس پر ملک و ملت کا انحصار ہوتا ہے جس کو بگاڑنے کے لیے دشمن طاقتوں نے بے شمار دروازے کھول دیا ہے۔ اﷲ ہم سب کی مددفرمائے ،آمین ! والدین کو یہ بھی یاد رکھنا چا ہیے کہ وہ اپنے بچوں کوجو بہترین عطیہ دیتے ہیں وہ ہے اچھی تعلیم و تربیت ۔]حدیث [ دوسرا گہوارہ: اسکول یا درسگاہ بچوں کی تربیت کا دوسرا بہترین ذریعہ ہے۔
والدین حتی الامکان تربیت دے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے بچوں کا داخلہ اسکول میں کراتے ہیں۔ جووالدین اپنے بچوں کو اچھی تربیت دے کر اسکول بھیجتے ہیں ان کے بچے اسکول میں بھی نمایاں مقام حاصل کرلیتے ہیں اور اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کرکے اساتذہ ٔ کرام کا دل جیت لیتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کی طرف اچھے استاذ کی نگرانی میں رواں دواں رہتے ہیں ۔ دوسری طرح کے والدین جو کسی وجہ سے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہ کرسکے اُن کے بچے اسکول میں بھی آئے دن شکایت کی وجہ بنتے ہیں اور ان کے والدین ایسے بچوں کی بگاڑ کے لیے اسکول و اساتذہ ٔ کرام کو ہی ذمہ دار سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ ایسے والدین کو جب اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تو وہ اسکول سے زیادہ امید لگا لیتے ہیں اور تب استاذ کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ والدین کے ذریعہ اولاد کی ناقص تربیت کا اثر بچوں کو زندگی کے ہرمیدان میں پریشان کرتی رہتی ہے۔
بچوں کوایک اچھاانسان بنانے کی دوسری بڑی ذمہ داری اساتذۂ کرام کی ہے۔ گھر کے بعد سب سے زیادہ وقت بچے کا اسکول میں گزرتا ہے جہاں اساتذۂ کرام اس کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک استاذ کو اپنی حیثیت خوب اچھی طرح سمجھ لینا چا ہیے۔ ایک حدیث میں آپ ۖ فرماتے ہیں کہ ” میں بہترین معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔” اس حدیث کی روشنی میں اساتذۂ کرام کا تدریسی کام بھی انبیائی مشن کا ہی حصّہ ہے۔ جب بچے باشعور ہوجا تے ہیں تو والدین کے مقابلے میں اسکول کے اساتذۂ کرام سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اس لیے اساتذۂ کرام کو چا ہیے کہ جو اچھی باتیں پڑھاتے یا سکھاتے ہیں اس کے وہ بھی خود عملی نمونہ ہوں۔ استاذ کے ذہن میں یہ بالکل نہ ہو کہ وہ بچوں کو پڑھا کر صرف اپنی روزی روٹی ہی کماتے ہیں بلکہ بچوں کو اچھا انسان بنانا اور اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنا بھی انسا ن کے پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ کبھی کبھی بچوں کے تعلق سے ان کے والدین کو حکمت کے ساتھ ان کی غلطیوں کا احساس کرانا اور ڈھارس بندھانا بھی استاذ کی اخلاقی ذمہ داری ہوجاتی ہے۔ یاد رہے کہ ایک انسان اپنی زندگی میں اپنے ماں باپ کے بعد اپنے استاذ کا ہی گُن گاتا ہے۔ ایسی حالت میں اچھے استاذ بچے کے لیے انجن کی حیثیت سے رہنمائی کرتے ہیں اور اُسے بنا بھٹکے ہو ئے سیدھے راستے پر چلاتے ہیں ۔ کلیدی جملہ کے طورپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بچوں کی تربیت کی فکر گھر پر والدین کریں اور استاذ کی نگرانی میں بچے اپنی تعلیم پوری کریں تو تعلیم اور تربیت مل کر بچوں کے مستقبل کو روشن کردے اور پھر ایک صحت مند سوچ رکھنے والے بچوں کا گروہ تیار ہو جائے اور پھر ہر انسان ایک اچھا شہری ،ایک اچھا انسان ، ایک اچھا مسلمان بن جا ئے۔ اﷲ کرے کہ ایساہی ہو، آمین ! تیسرا گہوارہ :گھر اور اسکول میں زیادہ تر اپنا وقت گزارنے کے بعد سماج میں بھی گھلنا ملنا چا ہتا ہے ۔
Life
سماج میں اُسے ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں ۔ بچے کی تربیت اگر گھر اور اسکول میں بہتر طریقے سے ہوجا ئے تو پھر سماج میں برے لوگ بھی ایسے بچوں کو بگاڑ نہیں پائیں گے، بلکہ اچھے بچوں کی بہتات کا اثر بگڑے ہو ئے بچوں پر بھی اچھا پڑے گا اور وہ بھی اپنی زندگی خوبصورت بنانا چا ہے گا۔ سماج میں جہاں خراب بچے ہو تے ہیں وہیں اچھے گھروں کے بھی بچے ہوتے ہیں ۔ والدین اور بڑوں کو چا ہیے کہ اپنے بچوں کو اچھے دوست مہیا کرائیں۔ کبھی کبھی اچھے بچوں کے والدین سے ملاقات کی غرض سے ان کے گھر پر جا ئیں جس سے بچوں کو حوصلہ ملے گا اور تربیت یافتہ بچوں کے آپس میں تعلقات مضبوط ہوںگے۔جب بد قسمت اور برے ماحول کے بچوں پر ان اچھے بچوں کا غلبہ ہو گا تو اچھے بچوں کی سنگت میں برے بچے بھی اپنا مستبقل سنوارلیں گے۔ آج اچھے لوگوں کی ایک بُری سوچ یہ ہوتی جا رہی ہے کہ وہ اپنی اولاد کوا چھی تربیت دے کر گھروں میں سمیٹ لیتے ہیں ،حالانکہ اچھے لوگوں کوکھل کر سماج میں آنا چا ہیے تا کہ اچھے اور برے بچوں کے بیچ ایک اچھا رشتہ قائم ہوسکے اور ہمارا سماج صحت مند بن جا ئے۔
اپنے تربیت یافتہ بچوں کو برے بچوں سے ڈرائیں نہیں بلکہ بگڑے ہوئے ماحول سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دلائیں ورنہ باہر کی گندگی ہواکے جھونکوںسے جب آپ کے گھر میں داخل ہوجا ئے گی تب ہاتھ مَلنے کے علاوہ کو ئی راستہ نہ ہو گا۔ اچھائیاں پھیلانے کی چیز ہوتی ہے نہ کہ چھپا کر رکھنے کی ۔ جہاں تک ہوسکے اچھی باتوں کو لوگوں تک پہنچانا چا ہیے۔ والدین کو چا ہیے کہ درس و تدریس کے بہانے بچوں کے لیے دینی ودنیاوی محفل آراستہ کریں اور اچھے استاذ کی نگرانی میں کھیل کھیل میںبھی تربیت کا انتظام کریں۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ خراب ماحول کے بچوں کو اپنے گھروں میں بھی اچھی باتیں سننے کو نہیں ملتی ہیں اور پڑھے لکھے ذمہ دار لوگ بھی انہیں اچھی محفلوں میں بیٹھنے کا کوئی موقع نہیں دیتے ہیں تو بے چارے گلی کو چوں کی خاک چھان کراپنی صبح وشام برباد کردیتے ہیں۔ لہذا ان سے جڑنے کی بھی سبیل ہم پڑھے لکھے لوگوں کو ہی نکالنا چا ہیے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں سماجی برائیوں سے اپنے گھروں کے بچوں کو بچانا اچھے والدین کی ذمہ داری ہے وہیں سماج کو بھی بنانا ہماری ضرورت ہے۔ اچھے لوگوں کے گھر وں میں بیٹھ جا نے سے نہ سماج سدھرے گا اور نہ وہ خود بچ پا ئیں گے۔ اس لیے بگڑے ہو ئے بچوں کے لیے بھی ایک قدم بڑھا ئیں وہ بھی اﷲ کی امانت ہیں ۔ آپ دوسروں کی بھی فکر کریں اﷲ آپ کی مدد کرے گا۔ اﷲ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین!
Mobile and Internet
اسباب اور حل : بچوں کی بگاڑ میں سب سے اہم رول بُری سنگت کا ہوتا ہے۔ بُری سنگت انسان کا بھی ہوسکتا ہے بُری چیز کا بھی، گھر میں بھی ہوسکتا ہے باہر میں بھی۔ سنگت چا ہے جس کی ہو اور جیسی ہو، پچھلے تینوں گہواروں کی تربیت پر ہی منحصرہے۔ ویسے ان دنوں موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ اچھے گھروں کے بچے بھی برے دوستوں سے جڑ جاتے ہیں اور بند کمرے میں بھی فحش فلموں کو دیکھ کر اخلاقی گراوٹ کے شکار ہو تے جا رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف ٹیلی ویژن نے عورتوں کو کاہل اور جھگڑالوبنادیا ہے وہیں موبائل نے بچوں کو بد اخلاق اور بد تمیز بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ والدین کو چا ہیے کہ بچوں کے ذریعہ استعمال کیے جا رہے موبائل پر نظر رکھیں ۔ اسکول کا پر جیکٹ وغیرہ بنانے کے بہانے انٹر نیٹ کا استعمال کرتے ہیں تو اس پر بھی کڑی نگرانی ہو۔آج کل بچے اپنے سے بڑوں کے بیچ بیٹھنا پسند نہیں کرتے ہیں اُس کی واحد وجہ یہ موبائل ہے۔ اس لیے والدین کو کبھی کبھی اپنے بچوں کو اپنے اچھے دوستوں کے گھر لے جانا چا ہیے۔ کسی دینی محفل ، کوئی جلسہ یا درس قرآن وغیرہ کی مجلس میں ساتھ لے جائیں تا کہ ذہن اچھی باتوں کے لیے تیار ہوسکے۔
اسکول وغیرہ کے بعد بچے زیادہ تر وقت موبائل پرگزارتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت برباد کردیتے ہیں جس کا بچوں کو خود شعور نہیں ہوتاہے۔ بڑے ہونے پر جب اس کا احساس ہوتا ہے تو بچے والدین کو ہی اس کا ذمہ دار ماننے لگتے ہیں۔ اس لیے وقت پر بچوں کو ان کی غلطیوں کا احساس کرانا والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ کبھی کبھی بچے والدین کی کم علمی کی وجہ کر اپنی غلط مانگ منواتے ہیں جس کے لیے وہ دھمکی کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ ایسے موقع پر والدین کو سختی سے نپٹنا چا ہیے اور بچوں کی دھمکی میں آکر نہ تو اُن کی غلط خواہش کو پوری کرنا چا ہیے نہ اُن کے آگے ہتھیار ڈالنا چا ہیے۔ آج برائیوں کے بڑھنے کی رفتار اتنی تیز ہوگئی ہے کہ والدین کوہر وقت چو کنّا رہنے کی ضرورت ہے ۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ خود بھی کریں اور بچوں کے لیے بھی مناسب اسلامک لٹریچر کا انتظام کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کل کتاب پڑھنے کا شوق اور اس کے لیے وقت دونوں کو موبائل کی نظر لگ گئی ہے ۔ بچوں کو بتایا جا ئے کہ Books are the best friend ۔ عام طورسے ماں بچوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرکے بروقت والد سے نہیں بتاتی ہیں جس سے سختی اور پابندی نہ ہونے کی وجہ کر برائیاں پروان چڑھتی جاتی ہیں۔ بچہ جب غلط رستے پر بہت دور تک چلاجاتا ہے تب پتہ چلنے پر بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اسی طرح والدین بغیر سوچے سمجھے اپنی بات بچوں پر تھو پتے ہیں تب بھی بچہ بغاوت پر اتر آتا ہے اور بری سنگت ضد میں آکر اختیار کرسکتا ہے۔ اس لیے حالات کودیکھتے ہوئے اپنی بات کہنا چا ہیے۔اﷲ کرے ہم لوگوں کا گھر اسلامی ماحول کا گہوارہ بن جا ئے، آمین !