تحریر : انجینئر محمد اویس ورلڈ کالمسٹ کلب (WCC) رجسٹرڈ کالم نگاروں کی بلاشبہ ایک بڑی تنظیم ہے جس کا تنظیمی نیٹ ورک صرف چاروں صوبوں و آزاد کشمیر میں ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ ، سپین،ڈنمارک اور دیگر ملکوں تک پھیلا ہوا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نہ صرف وہاں اس تنظیم کے ذمہ داران موجود ہیں بلکہ اس فورم کے زیر انتظام وقتا فوقتا اہل قلم کی ایسی سرگرمیاں بھی دکھائی دیتی ہیںجس میں پاکستان کی طرح دیگر ملکوں سے وابستہ دانشور بھی شریک نظر آتے ہیں۔ شورش کاشمیری کے شاگرد خاص حافظ شفیق الرحمن اس کے روح رواں ہیں اور ہر لمحہ تنظیمی سرگرمیوں میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر ابراہیم مغل، ذوالفقار احمد راحت، خواجہ جمشید امام، ریاض احمد احسان،فاروق چوہان،حبیب اللہ سلفی اور رانا زاہد اقبال جیسے متحرک اور معروف کالم نگارباقاعدہ طور پر اس تنظیم کا حصہ ہیں یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کا نیٹ ورک دن بدن پھیلتا دکھائی دیتا ہے اور سجاد میرو ڈاکٹر شاہد رشیدجیسے نامور دانشوروں کی اس فورم میں شمولیت کی خبریں بھی سنائی دیتی ہیں۔
دو دن قبل میں نے ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیئرمین حافظ شفیق الرحمن کے فیس بک پیج پر شہ رگ پاکستان کانفرنس کے عنوان سے پروگرام کا دعوت نامہ دیکھا تو بہت خوشی ہوئی اور میں چونکہ شروع دن سے حافظ شفیق الرحمن صاحب کی تحریریں بہت شوق سے پڑھتا آرہا ہوں اس لئے سوچا کہ مجھے کہیں سے دعوت ملے یا نہ ملے اس پروگرام میںضرور شریک ہوں گا۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے میں جب ہال میں پہنچا تو وہاں بھی حافظ شفیق الرحمن دیگر احباب خواجہ جمشید امام ، ریاض احمد احسان ،حافظ طارق عزیز اورحبیب اللہ سلفی کے ہمراہ انتظامات میں مصروف نظر آئے۔ سٹیج کے پیچھے ایک بہت خوبصورت فلیکس لگایا گیا تھا جس پر تنظیم کے عہدیداران کی تصاویر لگائی گئی تھیں۔سہ پہر ساڑھے تین بجے حبیب اللہ سلفی کی تلاوت سے تقریب کا آغا ز ہوا اور قصور سے آنے والے ایک شخص جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا’ نے کلام اقبال سنایا تو حاضرین کی جانب سے خوب داد دی گئی۔
شہ رگ پاکستان کانفرنس کے عنوان سے رکھے گئے اس پروگرام میں بلامبالغہ ایک سو سے زائد کالم نگاروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔کالم نگاروں کی کسی تنظیم کی جانب سے ضلعی سطح پر رکھے گئے پروگرام میں اتنی کثیر تعداد میں کالم نگاروں اور اہل دانش کا جمع ہونا بہت بڑی بات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ حافظ شفیق الرحمن اور ان کے دیگر دوستوں کی جانب سے ملک گیر سطح کا اگر کوئی پروگرام رکھا جائے تواہل قلم کا ایک بہت بڑا اجتماع دیکھنے کو ملے۔ بہرحال کشمیرکے حوالہ سے یہ ایک شاندار پروگرام تھا۔جماعت الدعوة کے مرکزی رہنما پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی اس تقریب کے کلیدی مقرر تھے۔ صدارت ڈاکٹر ابراہیم مغل نے کی جبکہ سٹیج کی ذمہ داری دور حاضر کے شورش حافظ شفیق الرحمن نے سنبھالے رکھی اور اپنی گفتگو سے ماحول کو گرمائے رکھا۔ کانفرنس میں جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مسلم لیگ (ن) کے لیڈر اور صوبائی وزیر زعیم قادری، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما نوید چوہدری، پاکستان ملت پارٹی کے صدر بریگیڈیئر محمد یوسف،نئی بات کے گروپ ایڈیٹرعطاء الرحمن، ذوالفقار احمد راحت،دیوان محیی الدین، ڈاکٹر اختر شمار،خواجہ جمشید امام، رضوان رضی، افتخار مجاز،سعد اللہ شاہ، ڈاکٹر عبدالباسط، خالد بھٹی، لطیف ساحل، اقبال خاں منج، فاروق تسنیم، قاضی منشائ، مقصود چغتائی،حافظ طارق عزیز،شہباز انور خاں، عقیل انجم اعوان،افتخار بھٹہ، پروفیسر ریاض بھٹی، سلم اشرف،پروفیسر عاطف خالد بٹ، فاروق چوہان، ، علامہ عبدالستار عاصم، اختر سردار چوہدری، رانا زاہد اقبال، مجید غنی، حافظ زوہیب طیب، شہباز سعید آسی ودیگربھی شریک ہوئے۔
کشمیر سے متعلق رکھی گئی اس تقریب میں جماعت الدعوة کے مرکزی رہنما عبدالرحمن مکی نے میلہ لوٹ لیا اورانتہائی شاندار اور ولولہ انگیز خطاب کیا جسے سبھی اہل قلم، دانشوروں اور شاعروں نے بہت پسند کیا۔ ان کے خطاب سے قبل ڈاکٹر اختر شمار نے کشمیری مجاہد کے عنوان سے ایک زبردست جذباتی نظم پڑھی اور خوب داد سمیٹی۔ ان کے متصل بعد حافظ عبدالرحمن مکی کا خطاب تھا جنہوںنے اپنے خطاب میں ماحول خوب گرمایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ کشمیریوں نے خون دیکر اپنی تحریک کو زندہ رکھا اور انڈیا کو ناکوں چنے چبوائے۔ قوم سوال کرتی ہے کہ کشمیریوں کیلئے سب سے مضبوط آواز حافظ محمد سعید کو کیوں نظربند کیا گیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنے کیس کو خراب کر تے ہیں ۔ افسوس کہ اس مسئلہ کو صحیح انداز میں دنیا کے سامنے واضح ہی نہیں کیا گیا۔ ہمیں مسئلہ کشمیر کو قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسی کے طو رپر دیکھنا چاہیے۔ وہ ایک غیر متنازعہ شخصیت تھے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ بانی پاکستان کا اس وقت عمل کیا تھا۔ یہ عمل ہمارے آنیوالے حکومتوں کیلئے ایک سنگ میل ہونا چاہیے۔انہوں نے واضح طور پر کہاکہ بھارت پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا تھالیکن کشمیری نوجوانوںنے اپنا خون دیکر اسے بچایا ہے۔کشمیرہمارے خون اور پانیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ صرف اقتصادیات ہی نہیں ہمارے ایمانیات کا مسئلہ ہے۔ ہم کشمیریوں کی مدد سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیئرمین حافظ شفیق الرحمن نے ان کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہاکہ ہم ببانگ دل کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ ہیں اور حق اور سچ حافظ محمد سعید کے ساتھ ہے۔ ہمیں اپنے اندر روح جہاد اورشوق شہادت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں قلم کو تلوار بنا کر لڑنا ہے ،ہمیں اس حق کے راستہ میں قبائلیوں کی طرح بھی لڑنا اور دنیا بھر کی مہذب افواج کی طرح بھی لڑنا ہے۔
ہم اپنی جان کے نذرانے وطن عزیز کے تحفظ کیلئے پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ہم یہ قرارداد پیش کرتے ہیں کہ جو وزیر اعظم مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کسی ایک قرارداد پر عمل نہیں کر سکاا نہیں حافظ محمد سعید کی نظربندی کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو بھی دلوں کو گرمانے والی تھی اور اس موقع پر کئی اہل قلم شورش کاشمیری کی یادوں کو تازہ کرتے رہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما زعیم قادری نے کہاکہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ ہم اغیار کی دہشت گردی کے حوالہ سے تشریح کو نہیں مانتے۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم کشمیریوں کی مدد کرنی چاہیے۔مسئلہ کشمیرپورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ ہمیں بھارتی دہشت گردی کا مسئلہ پوری دنیا میں اٹھانا ہے۔ کشمیر کل بھی پاکستان کی شہ رگ تھا اورآج بھی پاکستان کی شہ رگ ہے۔جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہاکہ مسئلہ کشمیر سرحدی تنازعہ نہیں ہے’یہ انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔بھارتی فوج کشمیر میں ناکام ہو چکی ہے۔
کشمیری پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طورپر مناتے ہیں۔ آج ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا جارہا۔پیپلز پارٹی کے مرکز ی رہنما نوید چوہدری نے کہاکہ کشمیر کے ایشو کو ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا تھا۔ حافظ محمد سعید کے حوالہ سے ہم دبائو کا شکار ہیں۔ پوری دنیا میں دہشت گردی کی جنگ لڑی جارہی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران دنیا کے سامنے فریڈم فائٹر اور دہشت گرد کا فرق واضح نہیں کر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم برہان وانی کو شہید کہتے ہیں لیکن دنیا سے یہ بات منوانے میں کامیاب نہیں ہیں۔ ہمیں دہشت گردی اور حریت پسندی میں فرق واضح کرنا چاہیے۔ پاکستان ملت پارٹی کے صدر بریگیڈیر(ر) محمد یوسف ودیگر مقررین نے حافظ محمد سعید کی نظربندی کی سخت مذمت کی اور کہا کہ صرف سید علی گیلانی، حافظ محمد سعید ہی نہیں پوری پاکستانی قوم کو کشمیریوں کی مدد کرنی چاہیے۔
Pakistan Conference
آزادی کی تحریکوں کو کبھی طاقت کے بل بوتے پر نہیں کچلا جاسکتا۔کشمیریوں کی آزادی کیلئے جہاد کرنا صرف حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت کا ہی نہیں پوری قوم کا فرض ہے۔ روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطاء الرحمن اور پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل دیوان محی الدین نے کہاکہ ہمیں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی بھرپو ر مددوحمایت کرنی چاہیے۔ کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس کا تحفظ کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ابراہیم مغل نے کہاکہ کشمیریوں کی مدد کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔آئندہ بھی ایسی مجالس کا اہتمام کریں گے۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیف آرگنائزر خواجہ جمشید امام کا کہنا تھا کہ کشمیر ہمارے قومی اتفاق رائے کا مسئلہ ہے۔ حافظ محمد سعید کو نظربند کرکے حکومت نے بیرونی دبائو پر گھٹنے ٹیک دیے۔ شہ رگ پاکستان کانفرنس سے رضوان رضی، افتخار مجاز،ڈاکٹر عبدالباسط، افتخار بھٹہ، پروفیسر ریاض بھٹی، اسلم اشرف،پروفیسر عاطف خالد بٹ، اختر سردار چوہدری، رانا زاہد اقبال، حافظ طارق عزیز،شہباز انور خاں، عقیل انجم اعوان،شہباز سعید آسی ، خالد بھٹی، اقبال خاں منج، فاروق تسنیم، قاضی منشائ، مقصود چغتائی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔