امریکہ زیادہ خوفزدہ کیوں ہے؟

Barack Obama

Barack Obama

امریکہ کے صدر باراک اوباما نے گزشتہ ہفتے یہ بیان دے کر سب کو حیران کر دیا کہ ان کے ملک کو تربیت یافتہ ”دہشت گردوں” سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے۔ پھر کہا کہ شام میں لڑنے والے یورپی مسلمان نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ یورپی پاسپورٹ کے حامل ان دہشت گردوں کو امریکہ کا ویزا لینے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔

ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے امریکہ کو خطرناک دہشت گردوں کے خلاف پیشگی کارروائی کرنا ہو گی۔اسی دوران امریکہ سے ایک اور خبر آئی کہ امریکہ دنیا کے کئی ممالک میں ہوائی اڈوں کی سکیورٹی سخت کر رہا ہے کیونکہ وہاں حملوں کا خطرہ ہے۔ اسی حوالے سے امریکہ کی داخلی سکیورٹی کے سیکرٹری جے جونسن نے بتایا کہ خطرہ موجود ہے اسی لئے ہم سکیورٹی بڑھانے پر مجبور ہیں۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپ کے کئی ممالک خاص طور پر اس کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ اس حوالے سے شدید پریشانی کا شکار ہے جس کا کہنا ہے کہ اس کے ہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان شام میں لڑنے کیلئے پہنچ چکے ہیں جو ملک کے لئے خطرہ ہوں گے۔ برطانیہ اس حوالے سے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے کہ ایسے نوجوان ان کیلئے خطرے کا باعث نہ ہوں۔

امریکہ ہو یا برطانیہ یا ان کے اتحادی دیگر یورپی یا غیر یورپی ممالک… ان سب کی اپنی سکیورٹی کے حوالے سے تشویش نائن الیون کے بعد ہمیشہ بڑھی ہی ہے کم نہیں ہوئی… حالانکہ یہ ممالک اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے نام پر ہی تو افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے اور انہوں نے 8لاکھ سے زائد افغان عوام بشمول بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور معذوروں و مریضوں کے انہوں نے لاکھوں ٹن بارود کی بارش کر کے شہید کئے۔

امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان کے بعد اگلا نشانہ عراق کو بنایا تھا جہاں مغربی میڈیا کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھی 10لاکھ سے زائد عراقی شہری شہید کئے گئے۔ ان دو محاذوں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی قوت نہیں تھی اور ان طاقتوں کو اس بات کا زعم تھا کہ ہمارے مقابلے میں تو کوئی طاقتور ملک بھی آنے کا سوچ ہی نہیں سکتا، بھلا افغانستان اور عراق کی حیثیت کیا ہے…؟

پھر دنیا نے دیکھا کہ افغانستان سے پہلے عراق میں امریکہ کو ایسی مار پڑی کہ انہیں حقیقی معنوں میں ”نانی یاد آ گئی” امریکہ کے لاکھوں فوجی پاگل ہوئے، نفسیاتی مریض بنے، لنگڑے، لولے ہو کر وطن واپس لوٹے۔ ساری ٹیکنالوجی اور طاقت کے غرور کا نشہ اتر گیا۔ بے پناہ دولت کے انبار نامراد ٹھہرے اور نہتے عراقیوں کے ہاتھوں بے بس ہو کر امریکی اتحادی پہلے، تو امریکہ بعد میں فرار ہو گیا۔ آج ایک بار پھر عراق امریکہ کیلئے سب سے بڑا دردسر بن گیا ہے تو افغانستان جہاں سے وہ اسی سال یعنی 2014ء میں مکمل انخلاء کر رہے ہیں۔

ہر روز انہیں بری سے بری خبریں مل رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ نے ناک سے سات سات بار لکیریں نکال کر اپنے بدترین عقوبت خانے گوانتاناموسے 5افغان مجاہد کمانڈروں کو اپنے ایک فوجی کے بدلے خود باعزت طریقے سے قطر لا کر چھوڑا۔ کتنے دن اور رات اوباما اس واقعہ کی ذلت کو مٹانے کیلئے بیان داغتا رہا۔ پھر افغان صوبہ ہلمند میں افغان مجاہدین نے بڑی یلغاریں کر کے کٹھ پتلی افواج کو بری طرح مار مار کر بھگا دیا جس سے امریکہ کی تشویش اور بڑھ گئی۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مرکز میں پہلے صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے بعد افغان فضائیہ کے افسروں کی بس کو اڑا دیا گیا۔

پھر کابل ایئرپورٹ پر حملہ ہوا جس میں صدر حامد کرزئی کے ذاتی استعمال کے ہیلی کاپٹر سمیت کئی املاک تباہ ہو گئیں۔ کابل میں نیٹو کی سپلائی لائن پر سب سے بڑا حملہ کر کے 400سے زائد آئل ٹینکر خاکستر کر دیئے گئے۔ ان خبروں نے امریکہ کو شدید مشکل سے دوچار کر دیا کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ امریکہ نے گزشتہ 13سال کے عرصہ میں جتنی قوت اور طاقت صرف کرنا تھی، کر کے دیکھ لی لیکن مقابلہ میں ڈٹے ہوئے بے سرو ساماں مجاہدین کو وہ نہ تو شکست دے سکا اور نہ انہیں اتنا کمزور کر سکا کہ وہ مقابلے کے قابل نہ رہتے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو 13 سال میں جو مار پڑی ہے۔

Hafiz Mohammad Saeed

Hafiz Mohammad Saeed

وہ آسمانی مار تھی جس کے بارے میں پروفیسر حافظ محمد سعید عموماً فرمایا کرتے ہیں کہ ”جہاد کے میدانوں میں زمین سے مار کم آسمانوں سے زیادہ پڑتی ہے” اور یہی کچھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فرعونیت کے ساتھ ہوا۔ وہ امریکہ اور اس کے اتحادی جن کے نزدیک ان کے ملک کے ایک شہری کی جان ساری دنیا کے انسانوں اور ملکوں سے زیادہ قیمتی ہے، ان کے ہی لوگوں کی لاشوں کے تابوتوں سے بھرے ہوئے جہاز ان کے ملکوں میں اترتے رہے۔ دنیا ان سپرپاورز کا تماشا دیکھتی رہی اور یہ مناظر آج بھی سب کے سامنے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ فرعون اور نمرود کے ان پیروکاروں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اگر وہ مسلمانوں پر ظلم بند کر کے انہیں جینے کا حق دے دیتے تو انہیں آج یوں پریشانی کا سامنا نہ ہوتا۔ ہر روز مسلمانوں کو دنیا بھر میں خوفناک سے خوفناک طریقے سے قتل کیا جاتا ہے۔دنیا میںنوے فیصد بے گھر افراد مسلمان ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیو ں کی جانب سے دن رات ان کی نسلوں کو مٹایا جاتا ہے ۔اور اس مستزاد یہ کہ پھر ان کی لاشوں کے ٹکڑوں پر دہشت گرد لکھ دیا جاتا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں اس پر کہیں کوئی بات نہیں ہوتی لیکن اگر کسی اسرائیلی یہودی کو کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ انہیں دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی نظر آتی ہے۔

اسرائیل کے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم پر سب کی آنکھیں بند لیکن تین یہودیوں کا غم سب کو کھائے جا رہا ہے۔ امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی اور ظالم… اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ظلم کا انجام بالآخر تباہی ہی ہوتا ہے اور یہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ امریکہ خود کو محفوظ بنانے کے نام پر افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا تھا لیکن وہ پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ معاشی اور عسکری میدانوں میں تباہی بھی سن کے سامنے ہے۔ اس سے سب سے بڑھ کر ان کے لئے سب سے بری چیز وہ خوف ہے جو ان پر کبھی کم ہونے کے بجائے ہمیشہ زیادہ ہی ہوا ہے۔ اگر یہ طاقتیں آج بھی نہ سمجھیں تو آسمانوں سے پڑنے والی مار انہیں بالآخر فرعون و نمرود کے انجام سے بہت جلد دوچار کر دے گی۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ساری دنیا میں یوں بے بسی اسلام اور مسلمانوں کی عظیم فتح بھی ہے جس پر انہیں اللہ کا شکار ادا کر کے اس ان ظا لموں کو ٹھکانے لگانی والی جہا د کی واحد قوت کو مزید مضبوط بنانا چاہئے۔مسلمانوں کے پاس اس کے سوائے اور ہے ہی کیا کہ وہ جس قدر بھی ممکن ہو مزاحمت کو اپنا شعار بنا لیں۔ مسلمانوں کو اپنے ملکوں کی اندرونی لڑائی کے بجائے بیرونی دشمنوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ سارے مسئلے حل ہو جائیں۔ امریکہ کی اس بے بسی پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے میدان جہاد کو سجانے والے افغانستان سے عراق اور ساری دنیا میں پھیلے مجاہدین کرام ہی سلام و عقیدت کے مستحق ہیں جنہوں نے خدائی کے دعویداروں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے اب یہ آخری چند سال ہیں جس کے بعد ظالموں کا ہی خاتمہ یقینی ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین