کرونا وائرس نے عالمی سطح پر ایک فوبیا کی شکل اختیار کرلی ہے، ساتوں براعظم میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں و خوف کی بنا پر کاروباری زندگی میں جمود آچکا ہے۔ معاشی سرگرمیوں کا تعلق انسانی صحت مند حیات سے ہے، معاشرے میں زندگی رواں دواں رہنے سے تجارتی معمولات میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ صنعتوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں میں کئی مسائل کا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کے اثرات کو واضح طور پر محسوس اور خدشات میں اضافہ تواتر سے کئے جانے لگا کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کو کم نہیں کیا گیا تو زمین انسانوں کے لئے ناقابل رہائش بن سکتی ہے اور انسانی زندگیوں کو متعدد خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس کے لئے عالمی قوتوں نے پیرس معاہدے کے تحت ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لئے ایک فنڈ مہم کا اہتمام کیا اور مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لئے امدادی پروگرام پر غور و فکر کیاگیا۔ تاہم امریکا، پیرس معاہدے سے باہر ہوگیا اور ماحولیاتی تبدیلی کی سفارشات پر عمل پیرا ہونے سمیت فنڈ مہیا کرنے سے انکار کردیا، جس سے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی کی بنیادی وجہ وجوہ میں امریکی صنعت کو اہم درجہ حاصل ہے، اور عالمی طور پر ماحولیات کے لئے نقصان کا بڑا سبب امریکی صنعتوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران ہی یہ عندیہ دے دیا تھا کہ امریکا ماحولیاتی معاہدے سے دستبردار ہوجائے گا۔ 2017کو اس اعلان کے بعد امریکا نے 2019میں معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا عملی آغاز کردیا۔ عالمی برداری نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو غیر مناسب قرار دیا۔ جاپانی وزیر ماحولیات کوئچی یاماموٹو نے کہا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے سامنے آنے والے فیصلے سے انہیں بے حد مایوسی ہوئی اور یہ فیصلہ انسانیت کی قابلیت کو پیٹھ دکھانے کے مترادف ہے۔جرمن چانسلر اینجلا میرکل، فرانسیسی صدر ایمانیول میکرون اور اطالوی وزیر اعظم پاؤلو جینٹیلونی نے مشترکہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ اب اس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہو سکتے، تینوں رہنماؤں نے اپنے حلیفوں پر زور دیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے میں اپنے توانائیاں صرف کریں۔چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ اور یوپی یونین کے اہلکاروں کے درمیان برسلز سربراہی کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پیرس معاہدے کو نافذ کیا جائے گا۔ چینی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا گرین ہاؤس گیس کا اخراج کرنے والا ملک ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں اپنے عہد پر قائم رہے گا۔روس نے بھی پیرس معاہدے سے امریکی انخلاء کے باوجود معاہدے کی حمایت میں آواز بلند کی۔روس کے نائب وزیر اعظم نے کہا کہ ’روس نے اس معاہدے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور میرا نہیں خیال کے روس اسے تبدیل کرے گا۔‘
کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی ہے اور گرین ہاوس ہاؤسز کے لئے اخراجات میں کمی پر اظہار کیا جانے لگا، لیکن ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم ہوتے جائیں گے تو یہ وقفہ عارضی تو تصور کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے مستقل بنیادوں پر تسلیم کرلینا قبل ازوقت اور غلط ہوگا۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ جنگوں کے بعد ماحولیاتی آلودگی میں وقتی طور پر کمی واقع ہوتی ہے لیکن حالات بہتر ہوتے ہی کاربن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کرونا وائرس نے فی الوقت عالمی درجہ حرارت و ماحولیات میں ناقابل یقین تبدیلی بھی پیدا کردی ہے اور اوزان کی تہہ (بلیک ہول) کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی ہے، تاہم اس اَمر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کرونا وائرس کو قابو پانے کے بعد ایک نئی تجارتی جنگ کا آغاز شروع ہوجائے گا، ترجیحات چاہے جتنی بھی تبدیل ہوجائیں، لیکن ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافے کے رجحان کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس وقت ہوائی سفر، ٹرانسپورٹ، صنعتیں بند ہیں، لیکن یہ مستقل نوعیت کی نہیں ہیں، بلکہ وبا کے بعد جہاں معاشی تغیرات سامنے آئیں گے تو ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا پوری دنیا کو ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلی سے وابستہ مسائل کو، جن کی وجہ سے آگے چل کر کہیں زیادہ سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں، نظرانداز کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔کرونا وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔نئے شمسی، ہوائی اور بیٹری سے چلنے والے پراجیکٹس کے لئے سرمایہ کاری کا حصول مشکل ہوجائے گا کیونکہ کرونا کی وجہ سے عالمی مالی منڈی کو پہلے ہی سخت خسارے کا سامنا درپیش ہے۔ سعودی عرب و روس کے درمیان تیل کی قیمتوں میں مسابقت کی وجہ سے فرق بڑھے گا اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی مانگ میں کمی پیدا ہوجائے گی کیونکہ تیل کی عالمی قیمتوں کے اثرات کا فائدہ صارف کو پہنچے گا۔
حالات معمول تک آنے تک پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں و تیل مصنوعات کے اضافے سے ماحولیات کے خطرات میں بے تحاشا اضافہ ہوسکتا ہے۔یورایشیاء گروپ کے ایک تجزیہ کار کے مطابق اگر تیل کی قیمتیں اسی طرح گرتی رہیں تو ممکن ہے کہ توانائی کی بڑی کمپنیوں کے لیے صاف توانائی زیادہ منافع بخش ثابت ہوگی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ممالک مالی بحران کے جواب میں اپنی معیشت سنوارنے کے لیے ایسے اقدام کریں جن کے نتیجے میں صاف توانائی کی صنعت کو بھی فائدہ پہنچے۔بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور گرڈ سٹوریج کے پراجیکٹس میں استعمال ہونے والے بیشتر شمسی پینلز، ونڈ ٹربائنز اور لیتھیم آئن بیٹریاں چین میں بن رہے ہیں اور چینی کمپنیوں کے مطابق انہیں سپلائی سے وابستہ مسائل کے علاوہ تخلیق کاری میں کمی کا سامنا ہے۔ اس سے کئی قابل تجدید توانائی کے بیرون ملک پراجیکٹس متاثر ہوئے ہیں۔
کرونا وائرس کی عالمگیر تباہ کاریوں میں سب سے اہم مسئلہ بے روزگاری کا اٹھ رہا ہے۔بے روزگاری بڑھنے اور بیماری کے عام ہونے کے سبب عالمی برداری کی توجہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہٹ کر عوام کے لئے روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے پر مرکوز ہوسکتی ہے، جس کے سبب ماحولیاتی تبدیلی کے لئے مختص فنڈز دوسرے پراجیکٹ پر استعمال ہونے لگ سکتے ہیں۔وبا کے باعث گھروں میں بیٹھنے کی عادات اختیار کی جاسکتی ہیں، اس طرح ممکن ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کم کرنے کے لئے طرز زندگی میں تبدیلی ناگزیر ہوجائے، اس سے کاربن کے اخراجات کی کمی مستقبل میں برقرار رہ سکتی ہے۔ نیو یارک یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اینوائرنمنٹل سٹڈیزکے کلینکل ایسو سیٹ پروفیسر گرنٹ ویگنر کے مطابق کرونا وائرس کے باعث ماحولیاتی تبدیلی کی کوششوں کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”چین میں اخراجات اس وجہ سے کم ہوئے ہیں کیونکہ معیشت پوری طرح تباہ ہوچکی ہے، لوگ ایک انجان بیماری سے مررہے ہیں، اور غرباء ادویات اور کھانے پینے کے اشیاء حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بننے والے اخراجات میں کمی کی اتنی بھاری قیمت نہیں ادا کی جاسکتی۔“
اس وقت دنیا بھر کا اہم مسئلہ کرونا وائرس کی وجہ سے بیماریوں و معیشت کے نقصانات کو جلد ازجلد کم و پھر ختم کرنا ہے، اس کے لئے ترجیحات طے کرلیں گئی ہیں، لیکن واضح نہیں ہورہا کہ کرونا وبا کی تباہ کاریاں کا دورانیہ کتنا طویل ہوسکتا ہے۔ اس وقت جو صورتحال و منظر نامہ دیکھنے میں آرہا ہے، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا میں ایک ارتقائی تبدیلی نمودار ہو رہی ہے اور اس کے براہ راست اثرات سے ترقی پزیر ممالک بُری طرح متاثر ہونگے، جب کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے گرتی معیشت کو اٹھانے کے لئے تمام بوجھ ترقی پزیر ممالک کے کندھوں پر ڈال سکتے ہیں۔ ان حالات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مثبت اثرات جلد ہی زائل ہوسکتے ہیں اور دنیا کو ایک نئے چیلنج کا سامنا درپیش رہے گا، جو اس کے پورے نظام کو تہس نہس بھی کرسکتا ہے۔