رحیم یار خان : سابق بینکار اور معاشی تجزیہ نگار ممتاز بیگ نے بتایا کہ دنیا بھر کے ممالک میں بجٹ پیش ہونا ایک معمول کی بات لیکن ہمارے ہاں خوف کی علامت ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ مطمئن جبکہ متوسط اور غریب طبقہ سہما رہتا ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ بہترین معاشی مصور جو چڑیل کو بھی پری بنا کر پیش کرنے میں ماہر جانے جاتے ہیں انھوں نے کشکول توڑنے کی بجائے پہلے سے بھی بڑا کشکول اٹھا لیا ۔بجٹ کی باریکیاںیکم جولائی کے بعد جبکہ اس کا شکنجہ ابھی سے سخت ہونا شرو ع ہوگیا ہے۔
وفاقی بجٹ میںہمیشہ کی طرح اس بار بھی خسارہ اورآمدن و اخراجات کا فرق پورا کرنے کیلئے 250ارب سے زائد کے نئے ٹیکس اور موجودہ ٹیکسوں میں اضافہ کے علاوہ ملکی و عالمی بنکوں اور ڈونرز سے قرضوں اور مدد پر انحصار کیا گیا ہے۔اس سے غربت اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ٹیکس نیٹ بڑھانے اورٹیکس چوروںکے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بجائے ان کی طاقت سے گھبرا کرانہیں نئے نام” نان فائلرز” کہتے ہوئے حکومت نے اپنی بے بسی تسلیم کرنے کے بعد ان کے سامنے ہتھیار ڈال کر انہیںمادر پدر آزاد چھوڑ دیا ہے۔
ٹیکس ایمنسٹی کی تمام سکیمیں محاصل بڑھانے میںناکامی پر حکومت نے اپنے غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کی بجائے قومی بچت کی سکیموںپر بیوائوں، بزرگوں، پینشنرز،متوسط طبقہ اور چھوٹے سرمایہ کاروں کی زندگی بھر کی بچتوں پر شرح منافع میں 170فیصدتک کی غیر معمولی کمی کا اعلان کردیا۔ یکم جولائی 2016سے ایک لاکھ روپے کی ڈیفنیس سیونگ سرٹیفکیٹ کی سرمایہ کاری پر دس سال بعدیہ رقم اب صرف دو لاکھ دس ہزارملے گی جبکہ گزشتہ سولہ سال سے اتنی ہی سرمایہ کاری پریہ رقم پانچ لاکھ دس ہزار ہوجاتی تھی۔قومی بچت کی دیگر تمام سکیموں میں بھی منافع کی شرح ماضی قریب کی کم ترین سطح پر کردی گئیں ہیں اس سے ان سکیموں میں مزید سرمایہ کاری کم ہوکر لوگ زیادہ منافع کا لالچ دینے والے دیگر غیر محفوظ اداروں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ان کی جمع شدہ پونجی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے حکومت اپنی پالیسیوں میں مناسب رد و بدل کریں۔