2 بار کی ورلڈ چیمپئن ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم روبہ زوال

West Indies

West Indies

سڈنی (جیوڈیسک) 2 بار ورلڈ چیمپئن بننے والی ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم اب روبہ زوال ہے، ورلڈ کپ میں آئرلینڈ جیسے حریف کے خلاف بھی ناکامی موجودہ اسکواڈ کی بے بسی ظاہر کرتی ہے۔

سابق کپتان کلائیو لائیڈ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کھیلی جانے والی ٹی20لیگز ہماری کرکٹ کی تباہی کا سبب بنیں، بہت سے پلیئرز اب ٹیسٹ کے بجائے نجی لیگز کھیلنا چاہتے ہیں، سابق پیسر ای ین بشپ بھی کیریبیئن جزائر میں کرکٹ کا مستقبل روشن نہیں دیکھ رہے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے نوجوان اب باسکٹ بال کھیلنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، ایک اور سابق فاسٹ بولر مائیکل ہولڈنگ کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیم نے آئرلینڈ کیخلاف 304 کا ہندسہ سجاکر خود کو فاتح خیال کیا، مجموعے کے دفاع کیلیے فائٹ ازحد ضروری تھی۔

تفصیلات کے مطابق ویسٹ انڈین کرکٹ ان دنوں روبہ زوال ہے، ٹیم کی آئرلینڈ سے شکست بے بسی کی واضح مثال ہے، ڈیرن سیمی کو دوران میچ کمر کی تکلیف کیلیے طبی امداد لینا پڑی، آندرے رسل بھی محض6 اوورز کر پائے جبکہ نئے کپتان اور پیسر جیسن ہولڈر بھی لائن و لینتھ تلاش کرتے دکھائی دیے، 40 برس قبل پہلا عالمی کپ جیتنے والی ویسٹ انڈین ٹیم نے اس کے چار برس بعد اعزاز کا دفاع بھی کیا تھا،1983 کے میگا ایونٹ میں وہ رنرز اپ بنی، اس کے بعد سے ون ڈے کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کی پوزیشن بہتر نہیں رہی،اس نے 2004 میں چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد 2012 میں ورلڈ ٹی20 ہی اپنے نام کیا۔

موجودہ صورتحال میں میلبورن ریڈیو اسٹیشن نے اپنی ٹویٹ میں لکھاکہ ’’ہم ویسٹ انڈین کرکٹ کو مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘‘، دیگر کا کہنا ہے کہ اسکے دل کی دھڑکن کافی وقت پہلے ہی رک چکی ہے،1975 اور1979 میں ٹائٹل جیتنے والے سابق کپتان کلائیولائیڈ اب ہیڈ آف سلیکٹرز کے عہدے پر فائز ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پُرکشش ٹوئنٹی 20کرکٹ نے ہمارے ٹیلنٹ پول کو کمزور کردیا، اس سے پلیئرز کی توجہ اور صلاحیتیں کم ہوئی ہیں، موجودہ کھلاڑی اچھی رقم کما رہے ہیں، ان کے پاس ٹیسٹ اور ٹی 20 کھیلنے کا انتخاب موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم اپنے پلیئرز کو دیگر ممالک کی طرح بڑی مالیت کے معاہدے نہیں دے سکتے لیکن وہ اچھی رقم کما رہے ہیں، ان کیلیے اپنے ملک کیلیے کھیلنا اب زیادہ اہم نہیں رہا، اس سلسلے میں کرس گیل کی مثال سب کے سامنے ہے، اوپنر بھارت، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کی ڈومیسٹک ٹی 20 لیگز میں حصہ لیتے ہیں، وہ دسمبر میں جنوبی افریقہ کے دورے پر جانے والی ویسٹ انڈین ٹیم کیلیے ٹیسٹ اور ون ڈے میچز میں شریک نہیں ہوئے تھے، انھوں نے ملکی بورڈ کا پیش کردہ سینٹرل کنٹریکٹ بھی ٹھکرا دیا۔

دوسری جانب ویسٹ انڈین بورڈ نے گذشتہ برس معاوضوں کے تنازع پر بھارتی دورے کو ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آنے کی پاداش میں ڈیوائن براوو اور کیرن پولارڈ کو ورلڈ کپ اسکواڈ سے باہر رکھا، اس معاملے پر کرس گیل نے آواز بھی بلند کی تھی، سابق فاسٹ بولر ای ین بشپ کا کہنا ہے کہ جزائز میں کھیل کے زوال کا سبب مالی مسائل بھی ہیں، عمومی طور پر بھی لوگوں کا مزاج بدل گیا،کیریبیئن لوگ اس وقت دوڑتے ہیں جب انھیں ڈالر دکھایا جائے۔

انھوں نے کہا کہ کرکٹ سخت محنت اور توجہ طلب کھیل ہے لیکن ہمارے بہت سے نوجوان اب رات میں برقی قمقموں کی روشنی میں باسکٹ بال کھیلنے کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں، کرکٹ اب ہماری زندگی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ایک اور سابق ویسٹ انڈین بولر مائیکل ہولڈنگ نے کہا کہ آئرش ٹیم کیخلاف اچھا اسکور کرکے بھی ہارنا مایوس کن ہے، میں نے ورلڈ کپ کے آغاز پر ہی کہا تھا کہ اس مرتبہ نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کی اچھی وکٹوں پر 300 رنز بنانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ویسٹ انڈین پلیئرز نے کیسے یہ سوچ لیا کہ وہ 300رنز بناکر اپنی جیت کو یقینی بنا چکے ہیں۔

میچ کی صورتحال کے مطابق خود کو نہ ڈھالنا ٹیم کی ناکامی کا سبب بنا، ہمیں معقول اسکور کرنے کے بعد اس کا دفاع کرنے کیلیے بھی فائٹ کرنی چاہیے تھی، انھوں نے کہا کہ فتح پر آئرش ٹیم بھی داد کی مستحق ہے جس نے خود کو ٹیسٹ اسٹیٹس کا حقدار ثابت کیا، اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے پلیئرز دیگر بڑے ممالک کی جانب رخ کریں گے جیساکہ اس ورلڈ کپ میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایون مورگن انگلینڈ کی قیادت کررہے ہیں۔