تحریر: رقیہ غزل آج پوری دنیا میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے یکم مئی کا دن ”لیبر ڈے” کے طورپر مناتے ہوئے ہمیں 129 سال ہو گئے مگر نہ انداز اہل زر بدلا اور نہ احساسِ زیاں جاگا مزدوروں کی فلاح و بہتری کے لیے آوازیں تو بہت بلند ہوئیں مگر عملاً کوئی سہولت، رعایت، ریلیف نہیں ملا بلکہ اس کساد بازاری میں امیرامیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب ترہو تا چلا گیااوراب اچھے مستقبل کی امید بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ رویے نے مزدور کی شخصی آزادی کو ہی صلب نہیں کیا بلکہ اس کی آزادی اظہار پر بھی قدغنیں لگا رکھی ہے۔
سرمایہ دار ہونا کوئی برائی نہیں مگر سرمایہ دارانہ رویہ احساسات اور خدائی پیغام سے متصادم ہے۔ یکم مئی کے تاریخی پس منظر سے بالعموم وہ ہی انسان واقفیت رکھتا ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ علم و تدریس سے وابسطہ ہے ورنہ عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ بھی چھٹی کا دن ہے جو حکومتی چھٹیوں میں سے ایک ہے ۔جس میں سرمایہ دار طبقہ اپنے بچوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکلتا ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ،مزدور یونین جلسوں ،تقریبوں اور ریلیوں کا اہتمام کرتی ہے ،مزدور لیڈر تقاریر کرتے ہیں اور مزدوروں کی انجمنیں بھی رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں،وزرا ور سربراہانِ مملکت کے رنگا رنگ بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔جس میں وہی نام نہاد دعوی اور دلکش وعدے کئے جاتے ہیں جو سالہا سال سے کئے جا رہے ہیں مگر تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھ لیں،روز اول سے لیکر آج تک میری قوم کے جفاکشوں کی وہی حالت ہے جو کل تھی۔ گو سرکاری سطح پر مزدوروں کی پزیرائی اور حقوق کے لیے ایک دن مختص کر دیا گیا ہے مگر حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ عالم انسانیت کا سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ یہ ہے جو اپنا تشخص تو دور کی بات ہے اپنی زندگی کا تحفظ بھی نہیں کر سکتا ۔اور اس تحفظ کے لیے بھی آواز بلند کرنے کے لیے والے وہ لوگ ہیں جن کے ظلم و ستم نے یہ لہو رنگ داستان لکھی تھی اور آج وہ ہی ان کے حقوق کے سب سے بڑے حامی اور ہمدرد ہونے کے دعوے داربنے ہوئے ہیں۔
آج مجموعی تاثر یہی ہے کہ 1886 میں شکاگو کے مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے جو نعرہ حق بلند کیا اور اس کے لیے اپنی جانوں کا قیمی نذرانہ پیش کیا اس جرات و بہادری سے اتنا ہوا کہ سال میں ایک دن اس طبقے کے نام کر دیا گیا جس کی حثیت ہر معاشرے میں کیڑے مکوڑوں یا تنکوں کے ڈھیر سے زیادہ نہیں ہے مگر اگر عمیق نظری سے دیکھا جائے تو صورتحال انتہائی مایوس کن منظر نامہ پیش کرتی ہے کیونکہ اس دن کے ہونے یا نہ ہونے سے مزدوروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم اس ملک کے پروردہ ہیں جہاں آگاہی کا فقدان ہے ،آگاہی تعلیم دیتی ہے مگر ہمارے نصاب میں بھی وہ علم شامل ہے جس کا اطلاق ہماری روز مرہ زندگی پر کہیں پرنہیں ہوتا ،اوریہی وجہ ہے اس معاشرے میں صرف وہ لوگ اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں جو قانون کی تعلیم حاصل کرتے ہیں یا جنھیں کوئی ایسی مشکل درپیش آجاتی ہے کہ انھیں عدالتوں میں بھٹکنا پڑتا ہے ۔اب ایسے میں سب سے نچلا طبقہ جس کو عام تعلیم تک رسائی ہی نہیں وہ اپنے قوانین و حقوق سے کیسے آگاہ ہو سکتا ہے۔
Labor Day
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مزدور جو کسی بھی معاشرے کی معشیت میں اہم حصہ رکھتا ہے ان کی بحالی اور خوشحالی کے لیے کی گئی سب کاروائیاں کاغذوں تک محدود ہوتی ہیں جبکہ1947میں جب پاکستان آزاد ہوا تھا تو پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر بن چکا تھا اور 1972میں با قاعدہ طور پر اس دن کو منانے کا اعلان ہوا تب سے آج تک پاکستان میں یہ دن طولاً کراہاً منایا جا تا ہے ۔جس میں محنت کشوں کو درپیش مسائل ،انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ اور مزدور دشمن قوانین کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے مگر اس مد میں کئے گئے تمام منصوبے ،قراردادیں اور آوازیں وہیں پر دب جاتی ہیں اور یہ دن حسرت و یاس کا ان دیکھا احساس لئے ڈوب جاتا ہے ۔مقام افسوس تو یہ ہے کہ ان تقریبات میں کوئی مزدور شامل نہیں ہوتا اور اگر ہوتے بھی ہیں تو ان تقربات کے لیے ریفریشمینٹ اور انتظامات کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہوگی اس پہ مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا ہے
آج دن ہے مزدوروں کا میں مان لوں کیسے افسروں کی چھٹی ہے کام پر ہیں سب مزدور
ایک محدود اندازے کے مطابق پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے ،جہاں لاکھوں کی تعداد میں مزدور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں ان کے بہت سے مسائل میں طویل اوقات کار ،کم اجرت ،صحت و صفائی اور انشورنس کی سہولیات کی عدم دستیابی سر فہرست ہیں ۔جس کی وجہ سے نہ صرف یہ مزدور خود بلکہ ان کے بچے بھی کم عمری میں ہیں محنت مشقت میں لگ جاتے ہیں اور تمام عمر زیست کی کھٹنائیوں سے لڑتے اور خودی میں پیچ و تاب کھاتے گزار دیتے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دل میں طبقاتی کشمکش زہر کی مانند سرایت کر جاتی ہے اور وہ ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر اپنا اور ملک و قوم کا نقصان کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں شرح دولت بڑھ رہی ہے وہاں سماجی تنزلی اور طبقاتی کشمکش میں بھی روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ہم سب ان تلخ حقائق سے آگاہ ہیں مگر آج بھی دنیا کے ہر ملک میں مزدوروں کا استحصال جاری ہے اور ان کی حالت زار بارے کوئی نہیں سوچتا۔ حکمران اپنی کرسی اور حکمرانی کے چکر میں رہتے ہیں ان کے تمام منصوبے اور سہولیات سے بھی وہی طبقہ مستفید ہوتا ہے جس کے پاس پہلے سے فراوانی ہے اور تنگ و تاریک گلیوں میں نہ باد نسیم چلتی ہے نہ ستارے جگمگاتے ہیں اس پہ طرہ مہنگائی اور افراط زر نے انھیں بالکل بے دست و پا کر دیا ہے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم سے دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے ایسے میں ان کی زندگی کی قیمت چند لاکھ روپے اور دو بول ہمدردی کے سوا کچھ بھی نہیں رہی سرکاری سطح پر بھی سب کوششیں نیم دلانہ لگتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال چند ایسے روح فرسا واقعات دیکھنے میں آئے جنھوں نے آدمیت کو شرمندہ کر دیا ،ایک چھوٹے مزدوربچے کو اس کی ماں کے سامنے بھٹے میں پھینک دینا ، دو بھائیوں کو زندہ جلا دینا اور ایسے ہی دو میاں بیوی کو زندہ جلانااور غریب کی عزت سے کھیلنا تو عام روش بن چکی ہے بلا شبہ یہ انسانیت سوز واقعات سرمایہ دارانہ طبقہ پر سوالیہ نشان ہیںکسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
اس شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں جس نے بنائے سب کے گھر اس کا گھر کوئی نہیں
اس لیے آج کے دن ان تقریبات کو منعقد کرنے یا دانشوروں ،ادیبوں کے اقوال اور اشعار کو پڑھنے سے بہتر ہے ان میں چھپے اس درد کو محسوس کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو اس دردناک ماضی سے نکالا جائے ،اگر حکومت مزدوروں کی بہتری کے لیے روایتی اعلانات اور رسمی تقریبات کرنے کی بجائے ان کی بحالی و خوشحالی کے لیے کئے گئے منصوبوں اور قراداداوں پر ترجیحی بنیادوںپر عملدرآمد کروائے تو شاید ان کی حالت بہتر ہوسکے اور تاریخ مزدوراں کے خزاں رسیدہ ابواب میں گلوں کا موسم ٹھہرے۔