تحریر : محمد آصف اقبال دنیا میں ہر سال 8 مارچ خواتین کا عالمی دن بڑے پرتپاک اور پرجوش انداز میں منا یاجاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ خواتین کے مسائل کو سمجھنے، انہیں حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔بے شمار دولت اس دن صرف ہوتی ہے۔دنیا کے ہر ملک میں حکومت کی جانب سے سیمنار اور مذاکرے منعقد ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم رہنے والی این جی اوزتعلیمی ادارے بھی اس دن بڑے پیمانہ پر پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ہر سال خواتین کے عالمی دن کے لیے ایک موضوع طے کیا جاتا ہے،یہ تھیم یا موضوع مقصد کے حصول کے لیے راہیں متعین کرتا ہے نیز بظاہر اس کے لیے کوششیں منظر عام پر آتی ہیں۔اس سلسلہ کا پہلا موضوع 1996میں “ماضی کا جشن اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی”طے کیا گیا تھا۔وہیں گزشتہ سال2017میں جو موضوع طے کیا گیا وہ “کام کی بدلتی دنیا میں خواتین کی حصہ داری:2030تک سیارہ50:50” رکھا گیا تھا۔
موضوع کے پیش نظر بے شمار مہمات کا آغاز ہوا۔اسی سے متعلق ہمارے ملک میں بھی ایک ضمنی موضوع “تبدیلی کے لیے جرات مند بنیں”کے تحت حکومتی سطح پر کوششیں سامنے آیا ۔بعد میں ایک اور اسکیم منظر عام پر آئی جس کا نام”پردھان منتری مہیلا شکتی کیندر”تھا،500کروڑ روپے اس کے لیے مختص کیے گئے جو 14لاکھ آنگن واڑی سینٹرس کے ذریعہ چلائی جانی تھی۔اسکیم کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے ساتھ ہی انہیں بااختیار بھی بنایا جائے۔ساتھی ہی دہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سماجی شراکت داری کا حصہ بنانا ،خود اعتمادی فراہم کرنا اور اپنی صلاحیت کو پہچاننا وفروغ دینا تھا۔یہ اسکیم 2017-18اور2019-20کے لیے طے کی گئی ہے اور اس میں خواتین اور بچوں کی صحت سے متعلق سرگرمیوں کو بطور ترجیحات طے کیا گیا ہے۔
دنیا میں سب سے پہلا انٹرنیشنل ویمن ڈے(عالمی یوم خواتین)19 مارچ1911کومنایا گیا تھا بعد میں 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال 8مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا۔جس کا مقصدمردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے پیش قدمی کی ترغیب دینا ہے۔یہ دن خواتین کی جدوجہدکی علامت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔جس کا پس منظر یہ ہے کہ 1908میں 15000ہزار محنت کش خواتین نے تنخواہوں میں اضافے، ووٹ کے حق اور کام کے طویل اوقات کار کے خلاف نیویارک شہر میں احتجاج کیا اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔ 1909 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے پہلی بارخواتین کا قومی دن 28فروری کو منایا گیا۔ 1910میں ورکنگ ویمن کی دوسری بین الاقوامی کانفرنس کوپن ہیگن میں منعقد ہوئی۔ جس میںClara Zetkin (جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما) نامی عورت نے خواتین کے عالمی دن کے نظریہ کو پیش کیا۔ 17ممالک کی 100سے زائد خواتین نے اس تجویز کو متفقہ منظور کیا اور ہر سال اس دن کو منانے کا فیصلہ ہوا۔1911میں کوپن ہیگن میں اس بات پر اتفاقی فیصلے کے بعد عالمی یوم خواتین (IWD)آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 19مارچ کو منایا گیا۔اقوام متحدہ نے 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا اور خواتین کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے خواتین سے متعلق تمام امتیازی قوانین اور رویوں کے خاتمے کا کنونشن The Convention on the Elimination of all Forms of Discrimination Against Women(CEDAW) تشکیل دیا اور تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حوالے سے سیڈا کنونشن کے مطابق قانون سازی کریں۔وہیں دوسری جانب دنیا میں خواتین کے تعلق سے سب سے زیادہ تنگ نظر و تنگ ذہن کہلائے جانا والا ملک سعودی عرب بھیاب اس سال 2018میں خواتین کے عالمی دن پر رنگارنگ پروگرام منعقد کرنے جا رہا ہے۔چونکہ سعودی عرب میں حالیہ دنوں “اعتدال پسند اسلام”کے نفاذ کی سعی و جہد جاری ہے۔
لہذا سعودی عرب میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دارالحکومت ریاض میں واقع شاہ فہد کلچرل سینٹر میں دو روزہ موسیقی میلہ منعقد ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس میلے کا عنوان سلمان کی بیٹیاں ہے اور اس میں سعودی خواتین موسیقاروں کے علاوہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں خواتین شرکت کریں گی۔ اس دو روزہ موسیقی میلے کی سپانسر شہزادی نورا بنت محمد آل سعود ہوں گی۔میلہ کا آغاز8مارچ یعنی خواتین کے عالمی دن سے ہوگا،جس میں خواتین تھیٹر پرفارمنس کا مظاہرہ کریں گی۔سعودی عرب کی مشہور شاعرات اپنا کلام سنائیں گی اور سعودی خواتین کی تاریخ سے متعلق ایک دستاویزی فلم دکھائی جائے گی۔شاہ فہد ثقافتی مرکز میں سعودی خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص لابی میں مختلف شو بھی دکھائے جائیں گے۔پروگرام میں نئے میڈیا ، فوٹو گرافی ، میڈیکل کلچر ، پلاسٹک آرٹس اور لوک ثقافت کے موضوعات پر مختلف سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔اس میلے کے دوران میں صحافت ، فنون لطیفہ ، تصویر کشی ، شاعری ، کھیل ، انتظامیہ اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کی حامل خواتین کو اعزازت سے نوازا جائے گا۔
“آزاد خیال “معاشرہ سے نکل کر خواتین کے عالمی دن کا دائرہ”تنگ خیال اور تنگ ذہن”ممالک تک ہوچکا ہے۔اس کے باوجود بین الاقوامی سطح پر خواتین کے عالمی دن سے متعلق پس منظراور ملکی سطح پر مقصد کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کے مختصر تذکرے کے بعد لازم ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ جن مقاصد کے تحت اور جن مسائل کے خاتمہ کے لیے یہ کوششیں کی جارہی ہیں،ان میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے؟مسائل میں کمی آئی ہے یا مسائل میں اضافہ ہورہا ہے؟گھر ،خاندان،معاشرہ اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر خواتین کیا کردار ادا کرتی نظرآرہی ہیں؟اور خواتین کے اس اجتماعی کردار کے نتیجہ میں دنیا میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہورہا ہے؟لیکن ان مسائل اور مقاصد کے حصول میں پیش رفت کے جائزے سے قبل ایک بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں مرد و خواتین دو الگ الگ اور مخصوص شناخت رکھنے والے کردار ہیں یا یہ ایک ہی کردار کے دو رخ ہیں؟عام الفاظ میں یہ سوال اس طرح بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ مرد اور خواتین کی فطری شناخت الگ الگ ہے یا ایک ہے؟
سوال کے جواب میں یہ بات آسانی سے طے کی جا سکتی ہے کہ ان دوکرداروں کا دائرہ عمل کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے؟کیا برابری اور حقوق کی پاسداری اور ادائیگی کے معنی یہی ہیں کہ جو مرد کام انجام دے وہی کام عورت بھی انجام دے؟یا اس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ مخصوص کام عورت انجام دے گی اور کچھ مخصوص کام مرد انجام دے گا اور کچھ کام ایسے ضرور ہوں گے جو عورت اور مرد دونوں انجام دے سکیں؟عموماً ا نہیں سوالات کے جواب میں زیادہ تر لوگ گمراہ ہوئے ہیں یا ان کی فکر کا تضاد سامنے آیا ہے۔جس کے نتیجہ میں مسائل کا حل اور طریقہ کار جو انہوں نے طے کیا وہ غیر فطری ہونے کی بنا پر مسائل کا حل پیش نہیں کر پائے۔برخلاف اس کے مسائل میں اضافہ ہوا،سکون و اطمینان غارت ہوا، گمراہی اور بداخلاقیوں کو فروغ ملا۔یہاں تک کہ گھر ،خاندان اور معاشرہ نئے مسائل میں گھرتا چلاگیا۔اور آج حالات یہ ہیں کہ وہی خواتین جو کل بازار کی رونق بننا پسند کرتی تھیں آج گھروں کا سکون و اطمینان تلاش کرتی پھر رہی ہیں۔کیونکہ جس مرد نے انہیں کل بازار کی رونق بنایا تھا آج وہی اس کا حد درجہ استحصال کررہا ہے۔نتیجہ میں نئے مسائل ابھر کے سامنے آئے ہیں اور جس کے لیے نئے کمیشن بنائے جا رہے ہیں ،اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی مقامات پر اجارہ داری آج بھی مردوں کی ہے۔تو پھر سوال یہ ہے کہ کل کون عورت کو بازار میں گھسیٹ کے لایا تھا؟اس کا استحصال کر رہا تھا؟چاہے وہ اجرت کی شکل میں ہو یا دیگر مسائل کی شکل میں اور آ ج کون ہے جو اسے ایک کموڈتی،بازار میں فروخت ہونے والی شئے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا؟برخلاف اس کے اسلام جسے عموماً تنگ نظر مذہب کہا جاتا رہاہے اس نے آغاز ہی میں عورت اور مرد کے حقوق واضح کر دیے ،نہ صرف واضح کر دیے بلکہ افکار و نظریات اور تعلیمات کی روشنی میں ایک صالح معاشرہ بھی قائم کر کے دکھا دیا۔جس میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ :”عورت کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے”(النسائ:34)۔۔۔جاری۔۔۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com