دنیا بھر میں 13 نومبر کو ورلڈ کائنڈنیس ڈے یعنی کہ مہربانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز تیرہ نومبر 1998 کو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہوا۔جب عالمی تحریک برائے مہربانی یعنی کہ ورلڈ کائنڈنیس موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے پر راغب کرنا اور دوسروں کے لئے نیک جذبات رکھنے کی ترغیب دینا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نیک کام کرنے سے انسانی جسم میں خوشی کے ہارمون پیدا ہوتے ہیں اور جو لوگ دوسروں کے لئے نیک جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔آج جذبہ مہربانی کو متحرک کرنے کے لیے مختلف تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔تقریبات میں مقررین نفسانی نفسی کے اس دور میں رحم پروری اور کرم نوازی کی انسانی معاشرے میں ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے کہ دنیا کو جنگ و جدل کے بجائے باہمی تعاون، رواداری، برداشت اور جذبہ ایثار و قربانی سے جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے حکومتی سطح پر بھی قوم کے لیے اہم پیغامات متوقع ہیں۔
اس با ت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں یوں تو بے تحاشا مسائل ہیں لیکن ان میں سب سے اہم مسئلہ غربت ہے جو بہت سے دوسرے مسائل کی جڑ ہے اور تعمیر وطن سے لے کر اب تک بتدریج سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ایک غریب شخص اپنی تمام زندگی محرومیوں میں گزار دیتا ہے نہ وہ اچھا کھا سکتا ہے اور ہی اچھا پہن سکتا ہے اور اپنی اولاد کو بھی معیاری زندگی نہیں دے سکتا’ اس کی زندگی ایک ہی دائرے میں گھومتی ہے۔ پاکستان کے ساٹھ فیصد لوگ غریب کی شرح سے نیچے زندگی گزار رہے۔ غربت کی وجہ سے ہی لوگ بہت سی مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے علاوہ ملک کے دیگر معاشی مسائل بھی ہے جو غریب کو غریب تر بنا رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کو ضروری اقدامات کرنے چاہئے تاکہ بڑھنے سے پہلے ہی اس مسئلے کو قابو میں کیا جا سکے۔
اگربات کی جائے مہربانی کے عالمی دن کے مقصدکے حوالے سے تو حقیقت اس کے برعکس ہے کیو نکہ میڈیا رپورٹس، عالمی سروے ،ماہر ین کا شکوہ رہاہے کہ پاکستان میں ایک طرف عام آدمی اپنے رہنے کے لئے چھت کی تلاش میں ہے تو دوسری طرف چند خاندان اور بااثر لوگ اربوں روپے کی سرکاری زمین ہڑپ کرگئے ہیں۔ سرکاری ادارے اور ریونیو کے محکمے جاگیرداروں، صنعتکاروں، وڈیروں، سرکاری افسران اوربااثر لوگوں سے قریبی تعلق رکھنے والوں کے ساتھ زمینوں کی بندربانٹ کررہے ہیں۔غریب شہری گھر کے لئے اور کسان فصل کے لئے زمین سے محروم ہے۔بغیر بجلی اور گیس کے لکڑی کاایندھن کے طور پر استعمال آج بھی عام ہے۔ پینے کے صاف پانی کا حصول لوگوں کے لئے بڑامسئلہ بنتا جارہا ہے۔ متعلقہ ادارے شاید عام عوام کو پانی کی فراہمی کی بجائے بڑی کمرشل کمپنیوں، صنعتی اداروں اور ٹینکرز مافیاکو سہولتیں دینے میں زیادہ سنجیدہ ہیں جس کے لئے وہ غیرقانونی ذرائع کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔
مریضوں کو اچھے معالج سے علاج کی سستی سہولت میسر نہیں، دواؤں کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کے بس کا کام نہیں رہا۔سبزی پھلوں مچھلی، گوشت اورمشروبات کے معیار اور نرخ کو مناسب رکھنے اور برقرار رکھنے کی ذمہ داری کوئی پوری نہیں کررہا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کی جانب سے پیکنگ میں غذائی اشیاء کی فراہمی میں معیار اور نرخوں کو چیک کرنے کی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی جارہی؟پینے کے پانی کو عوام تک نہ پہنچانے اور کمپنیوں کی جانب سے بھاری نرخوں میں پانی فروخت کرنے پر کسی کو تشویش نہیں ہے۔ ملک میں عوام بجلی، گیس، پانی اور غذائی اشیاء کی مہنگی داموں خریداری پر مجبور ہیں۔ مریضوں کو اچھے معالج سے علاج کی سستی سہولت میسر نہیں، دواؤں کی قیمتیں کنٹرول کرنا حکومت کے بس کا کام نہیں رہا۔غریب طالب علم معیاری تعلیم حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، ایم بی اے، اکاؤنٹس اور دیگر شعبوں کی جدید تعلیم کے لئے لاکھوں روپے درکار ہیں۔ماضی میں معمولی فیسوں کی ادائیگی پر تعلیم فراہم کرنے والی سرکاری یونیورسٹیا ں اور تعلیمی ادارے اب کہاں ہیں؟
شہروں میں لوگ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے سخت محنت کے ساتھ اپنی صحت کو داؤ پر لگارہے ہیں تو دوسری طرف دیہی علاقوں میں لوگ جدیدیت کو موبائل فون اور انٹرنیٹ تک سمجھ کر سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر سمجھوتہ کرچکے ہیں۔قیام پاکستان سے لیکر یہ نظام حکمرانی آئین کے تحت اپنی اختیارات پر عمل کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن مسائل کے حل، کرپشن اور اس سے جڑے لوگوں سے نجات پانے میں کوئی سنجید نہیں۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے ان کے علاقوں کے جاگیردار، بڑے زمیندار، وڈیرے جو بیک وقت سیاسی جماعتوں کے عہدیدار بھی ہوتے ہیں کبھی بھی اپنے ان غریب لوگوں کو جدیدتعلیم،بامقصد زندگی اور شعور پیدا کرنے والی قوتوں سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیتے۔ان بااثر لوگوں کی اولادیں ملکی اور بیرون ملک نامور تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے ہیں اور واپس آکر اپنی ذات کے لئے اس تعلیم کواستعمال کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ جدید تعلیم ان کے فرسودہ خیالات اور روایات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتی۔ بلکہ یہ اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ انہوں نے شہروں اور اداروں میں بھی اپنا طریقہ حکمرانی اور نظام رائج کر دیا ہے۔موجودہ سیاسی خاندانوں کی نئی نسل سیاسی میدان میں متحرک ہوچکی لیکن وہ اس نظام کی خامیوں سے اپنے آپ کوکس طرح علیحدہ کرسکے گی یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے آج ‘ ‘ مہربانی کے عالمی دن ” کے حوالے پاکستانی قوم اچھا پیغامات کی توقع رکھتی ہے۔