تحریر: یاسر رفیق دنیا کا بہترین اور پر فضاء مقام پہاڑوں اور چناروں میں چھپا ہوا سیاحوں کی جنت خطہ کشمیر جسے وادی جنت نظیر کہا جاتا ہے لیکن ایک عرصے سے وادی کے حسن کومٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے گولیوں کی تڑتڑاہٹ،احتجاج اور جوان اموات جیسے واقعات پیدا کر کے وادی کی فضاء اور امن کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بطور قوم کشمیری ایک امن پسند قوم ہے لیکن کشمیریوں کی امن پسندی کو چیلنج کیا جارہا ہے.کشمیر میں آئے روز کریک ڈائون،کرفیو اور برہنہ کرکے عام آدمی کی تلاشی لینا قابض افواج کی معمول کی کاروائی ہے جس سے حالات سنورنے کے بجائے بگڑتے جا رہے ہیں ان حالات کی وجہ سے آئے روز احتجاجی جلسے جلوس اور مار دھاڑ کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ کشمیری آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں یہ تمام تر حالات اور بنیادی وجہ کشمیر پر بھارت کا نا جائز قبضہ ہے بھارت کشمیرکو اٹوٹ انگ کہتا ہے لیکن کشمیری بھارت کے زیر سایہ نہیں رہنا چاہتے وہ خود مختار زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن بھارت مسلسل اپنی زد پر ڈٹا ہوا ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں ،بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور تحقیقاتی صحافی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو رپورٹ کر چکے ہیںریاست جموں و کشمیر میں قابض افواج کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا کوئی بھی کیس عدالت میں نہیں جا سکتا ریاست جموں و کشمیرمیں
عام آدمی تک انصاف کی رسائی ناممکن ہے ریاست جموں کشمیر ایک ایسی ریاست ہے جسے عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا ہے ر یاست جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں بھی موجود ہے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کئی قرار دادیں بھی پاس کر چکا ہے یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے چند دنوں سے وادی میں ایک بار پھر ماحول انتہائی کشیدہ ہو چکا ہے .قابض افواج کی طرف سے
Shelling
بے انتہا اور اندھا دھند فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میںتین سے چار نوجوان اور ایک عورت اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیںرد عمل کے طور پر کشمیری عوام اور نوجوانوں نے قابض افواج پر پتھرائوکرنا شروع کر دیا اور قابض افواج کے بنکر جلاڈالے نوجوانوں کی اموات نے پوری وادی پر سوگ طاری کر دیا.ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے کشمیری انصاف کے لیے کس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں،کون دے گا کشمیریوں کو انصاف ،دہلی سر کاریا مفتی سر کار.کیا محبوبہ مفتی ہمت کر کے ایک کشمیری ہونے کا ثبوت دے گی کیا وہ دہلی سرکار سے بے گناہوں کے خون کے انصاف کا مطالبہ کرے گی کیا قابض افواج کے ذمہ داران کو عدالت تک لایا جا سکے گایا ایسا کرنا محبوبہ مفتی کے بس کی بات نہیںصرف تحقیقاتی بیانات دینے سے مظلوموں کو انصاف مل جائے گا مظلوم انصاف کے نام پرتا حیات دربدر ہوتے رہیں گے ظالم کچھ عرصہ منظر عام سے غائب ہو جائے گابیانات کی حد تک تحقیقات مکمل ہو گی دہلی سرکار کی وفاداری ہوگی سرکار کا حکم سر آنکھوں پر،بس سرکار جی آپ خوش رہیے اور ہمیں کرسی پر براجمان رہنے دیجئیے.
عالمی برادری کشمیرکے موجودہ حالات پر کیوں خاموش ہے کوئی یہ کیوں نہیں جانتا کہ کشمیری احتجاج کیوں کر رہے ہیںکشمیری عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے کہ وہ آزاد رہیں گے یا کسی ملک کے ساتھ الحاق کریںگے د ہلی سر کار جمہوریت پر مکمل یقین رکھتی ہے تو وہ ریاست میں بھی جمہوری رویہ اپنائے گولی اور بندوق سے لاشیں گر سکتی ہیں امن قائم نہیں کیا جا سکتا کشمیر میں امن کا بہترین حل قابض افواج کا
بیرکوں میں واپس چلے جانا ہے ریا ست جموںو کشمیر کی حکومت کو با اختیار بنانا ہے اور دہلی سر کا ر کو یہ سو چنا ہوگا کہ ریاست جموں و کشمیر میں اگر فتنہ وفساد اور انسا نی حقوق کی پا ما لیاں جاری رہی تو ریاست کی صورتحال شام ،عراق اور افغانستان جیسی ہو سکتی ہے یہ کشمیری نوجوان بھی شامی ،عراقی اور افغانی نوجوانوں کا روپ دھار سکتے ہیںاگر یہی صورتحال جاری رہی تو پھر بدلے وقت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہو گا کہ کب کیا ہو جائے.میں ایک طالبعلم کی حیثیت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ طاقت اور تشدد مسائل کا حل نہیں مسائل مثبت مذاکرات، مظلوم کو انصاف اور قصور وار کو سزا دینے سے حل ہوں گے بیانات سے نکل کر حقیقت کی جانببڑھنا ہوگاحقیقت اور سچائی ہی تمام مسائل کا حل ہے تعارف: یاسر رفیق فری لانسر صحافی ہیں پاکستان میں تعلیم کی بہتری چاہتے ہیں صحافت کو اپنا مشن سمجھتے ہیں صحافتی مسائل،آزادی کشمیراور تعلیم کے موضوع پر لکھنا پسندکرتے ہیں