یہ کہاں جا رہے ہیں ہم

Democracy

Democracy

تحریر : واٹسن سلیم گل

دنیا چاند پر قدم رکھنے کے بعد مریخ پر انسانی مشن کے اترنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ ہوا میں اڑنے والی ٹیکسی کی کامیاب آزمائیش ساری دنیا نے دیکھی اور خبریں ہیں کہ دبئ وہ ملک ہوسکتا ہے جہاں کے مسافروں کو سب سے پہلے ان اڑن ٹیکسیوں کے میٹر ڈاؤن ہوتے دیکھنا نصیب ہو ۔ دنیا کی آبادی میں اضافے کو دیکھ کر پانی کی کمی کا اندازہ لگاتے ہوئے دنیا مصنوعی بادلوں کے تجربات سے گزر رہی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی ٹیکنولوجی اب بجلی پر منتقل ہورہی ہے بلکہ اب تو شمسی توانائ نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ آج لوگ اپنے بچوں کو بتا رہے ہیں کہ ٹیلی گرام نام کی کوئ چیز ہوا کرتی تھی جسے ہم پیغام رسانی کے لئے استمال کرتے تھے۔ آج الیکٹرونک میل اور ویڈیو کال کا زمانہ ہے۔ مگر ہم کہاں جا رہے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ہماری گاڑی کو یا تو ریورز گئیر لگ گیا ہے یا پھر شاید رک گئ ہے۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر ہمارے سیاسی حالات آج بھی جوں کے توں ہیں جو کہ ابتدائ سالوں میں تھے۔

جمہوریت کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر ہماری جمہوریت کو شاید پولیو ویکسین کا انجکشن نہی لگا جس کی وجہ سے کبھی چلتی ہے تو چلتے چلتے گر جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہندوستان بھی ہمارا ہم عمر ہے مگر اس کی جمہوریت کی گاڑی اپنے ٹریک پر رواں دواں ہے اور اسے کسی بھی ادارے سے خطرہ نہی ہے۔ جبکہ ہندوستان میں حکومتی لوٹ مار، کرپشن اور نسلی تعصب پاکستان سے کہیں زیادہ ہے مگر پھر بھی نہ تو کسی جنرل کی ہمت ہے کہ وہ جمہوریت کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے اور نہ ہی کسی اور ادارے کا اس حوالے سے کوئ استحقاق ہے۔

میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ہماری جمہوریت کی مفلوج حالت کا زمہ دار ہمارے جمہوری نام نہاد لیڈرز بھی ہیں کیونکہ یہ ہی سیاسی لیڈرز جمہوریت کے ٹریک کو کمزور بنانے میں دوسری قوتوں کے آلہ کار بنتے ہیں۔ بھٹو صاحب سے شروع کریں تو انہوں نے جہاں پاکستان کو آئین دیا اور ایٹمی طاقت کا پروگرام دیا وہاں پاکستان کے بٹوارے کو روکنے میں ان کا کردار نظر ہی نہی آیا۔ اگر وہ مجیب الرحمان کو حکومت بنانے کی دعوت دے دیتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ نوازشریف نے بھی آمروں کے اسکول سے میٹرک پاس کی تو ظاہر ہے کہ ان کی طبیعت بھی آمروں جیسی ہی ہے۔ انہوں نے بھی سوائے پنجاب کے اور کسی صوبے کے لئے کچھ نہی کیا۔ بلکہ ان کے اپنے صوبے میں اقلیتوں کے ساتھ آج جو کچھ ہورہا ہے اس میں نوازشریف پوری طرح زمہ دار ہیں۔ زرداری کسی پر بھی بھاری نہی ہے بھاری صرف خلائ مخلوق ہے جس کے قبضے میں زرداری کی جان ہے۔

عمران خان کے حوالے سے میں اپنا ایک نظریہ رکھتا ہوں کہ وہ ایک ناکام سیاست دان ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ میں عقل کُل تو ہو نہی اس لئے ہوسکتا ہے کہ میرا نظریہ غلط ہو مگر میرے نظریہ پر فیصلہ تب ہوگا جب ایک بار عمران خان وزیراعظم بنیں۔ میری نظر میں عمران خان نہایت خوش قسمت ہیں کہ دنیا میں کرکٹ کی تاریخ میں کئ ممالک نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا جیسے کہ ہندوستان نے ورلڈکپ جیتا، سری لنکا نے ورلڈ کپ جیتا، ویسٹ انڈیز نے ورلڈ کپ جیتا مگر ہمارا واحد ورلڈ کپ ہے جو پاکستان نے نہی بلکہ عمران خان نے جیتا اسی ورلڈ کپ کو نچوڑ کر کینسر ہسپتال بنایا۔ اور آج بھی اسی ورلڈ کپ کو استمعال کررہے ہیں باقی دس کھلاڑی اس وقت شاید پویلین میں بیٹھے تھے اور یہ صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہے۔ یہ سب مانتے ہیں کہ انتہا پسندی بھی ہمارے ملک کی خوشحالی اور ترقی میں ایک رکاوٹ ہے اس کے باوجود بھی عمران خان ملک کی سب سے زیادہ انتہا پسند جماعت کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔

اچھا اخلاقی طور پر بھی ہمارے سیاست دان کوئ اعلیٰ اقدار نہی رکھتے ہیں۔ہمارے جیسے عام لوگ بھی اپنے منہہ سے نکلی بات کا بھرم رکھتے ہیں مگر ہمارے سیاسی لیڈرز تو آج کی اپنی ہی بات پر دوسرے دن یو ٹرن لے لیتے ہیں۔ اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے اندازہ نہی کرتے کہ وہ خود اسی الزام کی زد میں ہیں۔ شاہ محمود قریشی مینار پاکستان پر تقریر میں پیپلزپارٹی کے گزرے ادوار پر تنقید کرتے ہوئے بھول گئے کہ وہ ان کا حصہ تھے۔ اسی تقریر پر ان ہی کی پارٹی کے نئے رکن جو کہ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور عالم کہلواتے ہیں ان پر توہین مزہب کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک اور لطیفہ خورشید احمد شاہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی نے اگر ترقی دیکھنی ہے تو میرے ساتھ سندھ چلو۔ اب ان کی اس بات پر سوائے ماتم کرنے کے اور کیا کیا جائے۔

ن لیگ اور ان کے مسیحی چیلے فرماتے ہیں کہ مسیحیوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ اس بات کا صرف ایک جواب ہے کہ یوحنا آباد کے مسیحی تین سالوں سے جیلوں میں قید ہیں ان کا قصور یہ تھے کہ انہوں نے چرچ حملوں کے بعد احتجاج کرتے ہوئے قومی املاک کو نقصان پہنچایا۔ مگر دوسری طرف خادم حسین رضوی اور اس کے چیلوں نے ایک ماہ سے زائد اسلام آباد اور راول پنڈی میں جو توڑپھوڑ کی اور فیض آباد روڈ بند رکھا تو ان کو دھرنے کے بعد پیسے دیئے گئے۔ چیف جسٹس نے پشاور میں نئے پاکستان کے نعرے کو اس وقت رد کر دیا جب ایک دماغی امراض کے ہسپتال پر چھاپہ مارا اور مریضوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا۔ معلوم نہی کے ہم جا کہاں رہے ہیں۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل