دنیا بھر میں بڑے پیمانوں کے مظاہروں میں یکسانیت

Protests

Protests

تحریر : قادر خان یوسف زئی

دنیا کے کئی ممالک میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کئی دنوں، جب کہ بیشتر ممالک میں کئی ہفتوں سے کئے جارہے ہیں۔ ان عوامی مظاہروں میں شریک لاکھوں افراد جہاں پُر امن ہوتے ہیں تو وہاں پرتشدد مظاہرے بھی رونما ہوجاتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح مشتعل مظاہرین ہنگامہ آرائیوں میں املاک کو نقصان سمیت فورسز کو بھی پتھراؤ کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے مہذب دنیا میں جمہوریت کی روایات سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اگر ریاست سے عوام کو شکایات ہیں تو اس کے ازالے کے لئے حکومت کو اپنی پالیسیوں سے عوام مطمئن یا پھر ایسے اقدامات واپس لینا پڑتے ہیں جو عوام کی بے چینی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ زیر سطور چند ایسے اہم ممالک میں جاری مظاہروں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ جہاں حکومت و عوام کے درمیان مظاہروں اور چھڑپوں کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے اور فریقین کے درمیان مذاکرات کے باوجود عوام حکومتی اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

لبنان
لبنان میں گزشتہ کئی دنوں سے مظاہرے کئے جارہے ہیں۔یہ لبنان کی ایک دہائی کے دوران ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے تصور کئے جا رہے ہیں۔ لبنان میں احتجاجی مظاہرے کا سبب حکومت کی جانب سے معاشی حوالے سے کچھ ٹیکسوں کا نفاذ تھا۔ لیکن جس اقدام نے لبنانی عوام کو مشتعل کیا وہ حیرت انگیز طور پر واٹس ایپ وائس کال پر لگائے جانے والا ٹیکس تھا، جس کے بعد عوام نے حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز شروع کردیا۔ لبنان مشرقی وسطی کا ایک اہم عرب ملک ہے۔ مسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود یہاں مسیحی اثر رسوخ زیادہ ہے۔1932کے بعد سے مردم شماری نہ ہونے کے سبب مسلمانوں کو اقتدار میں زیادہ حصہ نہیں مل پا رہا۔ سیاحتی مقامات کی وجہ سے معروف لبنان کو مشرق وسطی کا پیرس اورسوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔اسرائیل نے لبنان پر دو بار حملہ کیا اور عرب سرزمین کے کئی حصوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسرائیل اور لبنان کے تعلقات شروع سے ہی کشیدہ ہیں۔ 16ستمبر1982میں اسرائیلوں نے لبنان کے مارونی مسیحی ملیشیا کے ساتھ مل کر بیروت میں واقع صبر اوشاتیلا میں قائم فلسطینی کیمپ پر حملہ کرکے 5000کے قریب فلسطنیوں کو شہید کردیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا قتل عام تھا جس پر مغرب نے کوئی واویلا نہیں مچایا۔اس وقت لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری ہیں، جو اس وقت بدترین معاشی صورتحال و قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ جب کہ انفراسٹرکچر کی حالت زار خراب ہونے کے سبب عوام میں اشتعال کا لاوا کئی عرصے سے پک رہا تھا،اسے میں سعد حریری کا ایک ایسا اسکنڈل سامنے آیا جس میں کچھ عرصہ قبل ایک ماڈل کو انہوں نے لاکھوں ڈالر تحائف میں دیئے تھے۔ گو کہ اس وقت سعد حریری کا یہ اقدام ان کا ذاتی تھا تاہم لبنانی عوام پر جب مختلف محصولات عاید کئے گئے تو وزیر اعظم کے اسکینڈل سامنے آنے بعدعوام مزیدمشتعل ہوگئے۔ لبنانی حکومت نے عوامی مظاہروں کے بعد لگائے گئے ٹیکس واپس تو لے لئے ہیں لیکن عوام لبنانی ریاست کے اقدامات سے بیزار نظر آتی ہے۔ معاشی اقدامات ناکافی تصور کئے جانے کے سبب وزیر اعظم نے وزرا ء و کابینہ کی تنخواہیں بھی نصف کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن ان تمام اعلانات سے لبنانی عوام مطمئن نہیں ہوئے۔ بالاآخرانہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پوری لبنانی حکومت مستعفٰی ہوجائے۔

ہانگ کانگ
ہانگ کانگ بین الاقومی سرمایہ کاری ایک اہم مرکز ہے۔ برطانیہ اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت 1997میں ہانگ کانگ کو واپس چین کے حوالے کردیا گیا تھا۔ ہانگ کانگ میں گزشتہ دس ماہ سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے پہلے کافی پُر امن تھے لیکن بتدریج پُرتشدد ہوتے چلے گئے۔ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں کی بنیادی وجہ ایک ایسا مجوزہ قانون تھا جس کے تحت ہانگ کانگ کی انتظامیہ چین کو مطلوب ملزمان کو بیجنگ کے حوالے کرنے کی پابند ہوجاتی۔قانون کے مخالف مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا سہارا لے کر چین کے خلاف تنقید کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے چین کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ جولائی میں عوامی مظاہروں کی شدت کے سبب ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے قانون کو معطل کردیا، لیکن مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت یہ اعلان کرے کہ اس قسم کی قانون سازی کبھی نہیں کی جا ئے گی۔ حکومت نے واضح طور پر ایسا کسی اعلان کرنے سے گریز کیا ہے۔اس کے ساتھ عوامی مظاہروں میں شدت کے ساتھ سیاسی مطالبات بھی بڑھتے چلے گئے، گرفتار مظاہرین کی رہائی، پولیس کے خلاف کاروائی ہانگ کانگ اسمبلی اور سربراہ کے لئے انتخابات کا طریقہ کار اختیارکرنا اور اب مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔چین نے خبردار کیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کو چین سے الگ کرنے کی کوششیں برداشت نہیں کرے گا۔ چین اور ہانگ کانگ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی قونصل خانے کے باہر ہونے والے مظاہروں سے ثابت ہو گیا کہ ان کے پیچھے غیر ملکی قوتیں کارفرما ہیں۔ حکام نے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔چینی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق صدر شی نے کہا کہ ’جو بھی چین کے کسی بھی حصے کو توڑنے کی کوشش کرے گا اس کے جسم کے چیتھڑے اور ہڈیوں کا چورا بنا کر اسے فنا کر دیا جائے گا۔‘

چلی
لاطینی امریکا کے سب سے مستحکم ملک چلی میں پر تشدد مظاہرے جاری ہیں اور وہاں کرفیو بھی نافذ کردیا ہے۔ چلی میں احتجاج کا آغاز سب وے اور بسوں کے کرایوں میں اضافے سے شروع ہوا۔ احتجاج اس قدر بڑھا کہ چلی کے صدر سباسشین پنیر نے ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے فوج کی مدد حاصل کرنا پڑی۔صدر پنیرا نے صورت حال کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری جنرل جاویئر دیل کمپو کے حوالے کی ہے۔ لاطینی امریکا کے مستحکم ملک میں مہنگائی اور معاشرتی عدم مساوات کے خلاف شہریوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد دارالحکومت سانتیاگو میں عائد رات کے کرفیو میں توسیع کر دی ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل جاوئیر اتوریاگا نے کرفیو کے دوران لوگوں کو پرامن اور گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ہنگاموں کے بعد چلی کے دارالحکومت، سانتیاگو میں سڑکوں پر فوج نے گشت شروع کر دیا ہے۔مظاہرین کے احتجاج پر تشدد ہوچکے ہیں اور انہوں نے میٹرو نظام کو بھی نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے میٹرو سسٹم بحال نہیں ہوسکا۔ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات و ہنگامہ آرائیوں میں اب تک 15 سے زاید افراد ہلاک و سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔حکومت نے کئی روز سے جاری مظاہروں کے بعد ملک کے غریب طبقے کے لیے معاشی اصلاحات کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ دارلحکومت سانتیاگو میں صدارتی محل سے اپنے خطاب میں صدر سیباستیان پِنییرا نے پینشن بڑھانے، دوائیوں کی قیمتیں کم کرنے اور امیر طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات عوام کے جائز مطالبات پورے کرنے کی کوشش ہیں۔تاہم چلی میں جس طرح پرتشدد مظاہرے، ہنگامہ آرائی و جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے ہیں اس سے چلی کی حکومت بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور حکومت رٹ قائم کرنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔

عراق
امریکی و داعش کے قبضوں نے عراق کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ جس کے مضر اثرات عوام میں آنا شروع ہوئے اور عراقی عوام نے حکومت کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پرتشدد مظاہرے کرنا شروع کئے۔ عراقی عوام کو بھی مہنگائی، سرکاری اداروں میں کرپشن، بے روزگاری سمیت عدم مساوات کی شکایات ہیں۔ عراقی عوام نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گوکہ عراقی حکام نے عوام کے مطالبات حل کرنے کی مکمل یقین دہانی کرائی لیکن عراقی عوام نے حکومت کی کسی یقین دہانی کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کئی ہفتوں سے پُر تشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ عراق تیل کے ذخائر رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن عراقی عوام یران جنگ، کویت حملہ اور امریکی قبضے کے بعد داعش کے چنگل میں اس طرح الجھی کہ دنیا کی تیل کی ضروریات پورا کرنے والا چوتھا بڑا ملک اپنی عوام کی معاشی مشکلات کو حل کرنے میں مسلسل ناکام چلا آرہا ہے۔ خود کش دھماکوں سمیت فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں سے بدحال عراق اس وقت دنیا کے سامنے عبرت کی مثال بنا ہوا ہے کہ قدرتی وسائل سے ملال مال ہونے کے باوجود ثمرات سے اس لئے محروم ہیں کہ وہاں سیاسی افراتفری و انارکی اپنے عروج پر ہے، فرقہ وارنہ خانہ جنگیو ں اور سیاست نے عراق کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رکھا۔ بغداد عوامی احتجاجوں کے سبب اس وقت بھی جنگ کا منظر پیش کررہا ہے۔ لیکن عراقی حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے تمام دعوؤں و وعدوں کے باوجود ریاستی بد انتظامی کا شکار ہیں۔ عراق میں عوامی مظاہرے جاری ہیں، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے کا کوئی ایسا فارمولا دینے میں ناکام ہے جس سے عراقی عوام کا احتجاج پرسکون ہوجائے۔ عراقی مظاہرین موجودہ حکومت کی ناکامیوں پر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن حکومت مظاہرین کے پُر تشدد احتجاج کو روکنے میں ناکام نظر آتی ہے تاہم طاقت کے استعمال سے مظاہرین کو دبانے کی کوشش کررہی ہے جس سے متعدد افراد جاں بحق و ان گنت زخمی ہوچکے ہیں۔ معاشرتی مسائل سے دوچار عراقی عوام اب بھی احتجاج کررہے ہیں، ان کے احتجاج پُر تشدد ہوچکے ہیں، شائد عالمی طاقتوں کے اس عراقی اکھاڑے میں عوامی مسائل حل ہونے کی توقعات میں کچھ مزید وقت لگے گا کیونکہ امریکی فوجی، شمالی شام سے عراق میں آچکے ہیں، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عراق اب بھی عالمی طاقتوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لئے اپنی عوام کے دیرینہ مسائل کرنے سے قاصر رہے گا۔وزیر ا عظم عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے پارلیمنٹ سے مدد لینے کا اعلان کیا ہے، لیکن مظاہرین نے وزیر اعظم کے اعلان کو نظر انداز کرتے ہوئے پر تشدد احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔عراق میں بڑی سیاسی قوت سمجھے جانے والے بااثر لیڈر مقتدیٰ الصدر نے وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پارلیمان کے اسپیکر محمد الحلبوسی نے مظاہرین کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی آواز سنی جارہی ہے، روزگار کے نئے مواقع کی تخلیق اور سماجی بہبود کے بارے میں اسکیموں پر غور کیا جائے گا۔۔مقتدی الصدر کے حامی اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد بھی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ جس پر حکومت طاقت کا استعمال کررہی ہے جس میں کئی درجن افراد جاں بحق و سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔قدرتی وسائل سے مالا مال ملک شدید بے روزگاری، مہنگائی اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے خلاف عراقی عوام سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔

فرانس
فرانس میں 17 نومبر 2018 میں پیٹرول کی قیمتوں اور خراب اقتصادی حالات کے خلاف ردعمل کے طور پر مظاہرے شروع ہوئے جو بعد ازاں میکرون انتظامیہ کے خلاف مظاہروں میں تبدیل ہو گئے اور کئی ماہ سے جاری ہیں۔پیلی جیکٹ پہنے مظاہرین فرانسسی حکومت کے خلاف مہنگائی اور ماحولیاتی آلودگی کے کنٹرول میں ناکامی سمیت بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مسلسل کئی ہفتوں سے احتجاج کررہے ہیں۔تاہم احتجاج تیل کی قیمتیں بڑھائے جانے کے سبب شروع ہوئیں۔ اب یہ تحریک فرانس کے شہروں میں بہت نظر آ رہی ہے، لیکن احتجاج میں دیہی علاقوں کو غیر معمولی طور پر متحرک پایا گیا ہے۔ پیلے رنگ کے واسکٹ کو ایک علامت کے طور پر منتخب کیا گیا تھا کیونکہ 2008ء کے بعد سے تمام کمرشل گاڑی چلانے والوں کو قانون کے تحت پیلی رنگ کی جیکٹ پہننا لازمی قرار دیا جا چکا ہے جس کی وجہ سے یہ عکس انداز جیکٹس وسیع پیمانے پر سستے دستیاب ہیں۔ پولیس اور مظاہرین جب بھی آمنے سامنے ہوتے ہیں تو دونوں جانب سے تشدد کا آغاز ہوجاتا ہے۔ مظاہرین پولیس کو نشانہ بناتے ہیں اور پولیس مظاہرین کو گرفتار کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ گزارہ کرنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ بعض مظاہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا احتجاج فرانسیسی صدر کے خلاف نہیں بلکہ اس نظام کے خلاف ہے جسے عام آدمی کی مشکلات کا کوئی احساس ہی نہیں۔ مظاہرین نے پولیس کے لاٹھی چارج پر بھی شدید احتجاج کیا اور کہا ہماری تعداد ایک سو افراد سے بھی کم ہوتی ہے مگر پولیس کی بہت بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جو احتجاج کرنے والوں سے زیادتی کرتی ہے۔ پولیس مظاہرین پر گیس پھینکتی ہے جس سے ان کی آنکھیں جلنے لگتی ہیں۔ یہ مظاہرین عام طور پر ہر ہفتے کو احتجاج کے لیے نکلے ہیں۔پیلی جیکٹ تحریک کے مظاہرین نے جی۔ سیون کانفرنس کے انعقاد کے دوران بھی شدید احتجاج کیا تھا۔ پیلی جیکیٹ پہنے احتجاج کرتے مظاہرین عموماََ بنکوں کے سامنے احتجاج کرتے ہیں۔ ان کی تحریک دیگر ممالک میں بھی پھیلی اور مہنگائی کے خلاف احتجاج وسیع و طویل ترین ہوچکا ہے۔ تاہم فرانس کے صدر میکراں نے معاشی اصلاحات کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور مظاہرین کے مطالبات پر کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا۔بیشتر فرانسیسی سیکورٹی اہلکاروں کا خیال ہے کہ پیلی جیکٹ احتجاج کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے جس کا مقصد فرانس کو کمزور کرنا ہے۔پورے فرانس میں جاری پُرتشدد عوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جب اپنے چوتھے ہفتے میں داخل ہوا تھاتو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے خطاب میں اس بات کو تسلیم کیا کہ سڑکوں پر نظر آنے والا غصہ ’گہرا ہے اور کئی زاویوں سے درست بھی۔‘انہوں نے تسلیم کیا کہ، کچھ ایسے ’لوگ ضرور ہیں جن کے درجے کو معاشرے میں پوری طرح سے تسلیم نہیں کیا گیا، دراصل ہم بڑے ہی بزدلانہ انداز میں اس کے عادی ہوچکے تھے، اور اب معاملات دیکھ کر محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے ہم انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔‘موجودہ صورتحال میں اپنے کردار کی کچھ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ’ہوسکتا ہے کہ میں نے آپ کو تاثر دیا ہو کہ میری فکریں اور ترجیحات کچھ اور ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگوں کو میرے لفظوں سے ٹھیس بھی پہنچی ہوگی۔‘

بالا سطور اُن چند ممالک میں مظاہروں کا احوال ہے جہاں لاکھوں عوام مہنگائی، سرکاری اداروں میں کرپشن، بے روزگاری سمیت عدم مساوات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔جہاں عوام تبدیلی حکومت سمیت اپنے مطالبات کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکراؤ کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے علاوہ طبقاتی تفریق کی وجہ سے عوام میں ایک انتشار پیدا ہوتا ہے اور اُن جذبات کو احتجاج کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی متعدد معاملات ایسے ہیں جس میں عوام نے حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کے لئے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ ماضی میں پر تشدد مظاہروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ لبنان، چلی، ہانگ کانگ، عراق، فرانس سمیت جرمنی، برطانیہ، اسپین، بھارت، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش کئی ایسے ممالک ہیں جہاں عوام کو درپیش مسائل یکساں ہے ان میں مماثلت ہے اور عوام کی اکثریت ارباب اختیار سے استعفیٰ بھی مانگ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقی پزیر ممالک بالخصوص پاکستان کی عوام اور ارباب اختیار کو دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام کو درپیش مشکلات کا کیا حل ہے۔ عوام کو بھی دیکھنا ہوگا کہ انھوں نے وہ تمام تر ذمے داریاں پوری کی ہیں جو اُن کے ذمے واجب ہیں۔ اگر نان ایشوز پر عوام بغیر سوچے سمجھے احتجاج و مظاہرے کرتے ہیں تو ان کے موقف کو سمجھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر ان ممالک کے نظام کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔تاہم جہاں جمہوری معاشرہ مضبوط ہو تو عوام کے نزدیک واٹس ایپ کال یا بس کرائے کے معمولی اضافے پر بھی مظاہرے نوشتہ دیوار بن جاتے ہیں۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی