چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) دُنیا میں جاری اس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جسکی ابتدائی مالیت چھیالیس ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر باسٹھ ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔
واپڈا کے ایک سابق جنرل مینجر ٹیکنکل خالد سعید اختر کے مطابق چین کو اس منصوبے سے کب فائدہ پہنچتا ہے یہ تو بعد میںپتا چلے گا مگر پاکستان پر چند برسوں کے اندر انقلابی تبدیلیوں کی بارش ہورہی ہو گی۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آچکا تھا اور پورا ملک اندھیروں میں ڈوب چکا تھا مگر سی پیک کے تحت بجلی کے نئے منصوبے بنے اور ان میں سے کئی تو مکمل ہو چکے ہیں اور پیداوار دے رہے ہیں جس سے غیر اعلانیہ اور بے تہاشا لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
خالد سعید کے مطابق کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوںسے آٹھ ہزار ایک سو میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ان میں تیرہ سو بیس میگا واٹ کا ساہیوال کول پروجیکٹ(جس سے نصف پیداوار ملنی شروع ہو گئی ہے) ، پورٹ قاسم کول پروجیکٹ بھی تیرہ سو بیس میگا واٹ ہے، حب کول پروجیکٹ سے بھی اتنی ہی بجلی حاصل ہوگی۔تھرکول پروجیکٹ کی صلاحیت نو سو میگا واٹ ہے ۔ مائن ماوتھ کول پروجیکٹ بھی تیرہ سو بیس میگا واٹ ہے ۔ اینگرو کول پروجیکٹ بھی تیرہ سو بیس میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا اور گوادر پاور پروجیکٹ سے چھ سو میگا واٹ بجلی ملے گی۔
سی پیک پر اُٹھنے والے سنجیدہ سوالات، نتائج ، ثمرات ، افواہوں اور پروپیگنڈے کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کو اعتماد میں لینے،رائے عامہ ہموار کرنے اور اس منصوبے کے حوالے سے پائے جانے والے “غلط تصورات اور حقائق میں فرق کرنے کی ضرورت ” کے عنوان کے تحت گذشتہ دنوں پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای ) اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ(پی ایف سی) کے زیر اہتمام اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں ایک سادہ مگر پروقار سیمنار کا انعقاد کیا جسکی پروگرام آرگنائزر نامور صحافی و سماجی کارکن محترمہ حمیرا اویس شاہد تھیںجبکہ اس سیمینار کے مہمانانِ اعزاز میںنگران وفاقی وزیر اطلاعات بیرسٹر سید علی ظفر،، سی پی این ای کے صدر عارف نظامی، سابق گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین ، دفاعی تجزیہ نگار اکرام سہگل، پاکستان میں چین کے قائم مقام سفیر مسٹرلی جیان زو اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک محمد سلیمان تھے۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے سی پیک کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے پھیلائی جانے والی منفی افواہوںاور پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے اسے پاکستان کے لیے گیم چینجر قرار دیا اور قرار دیا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔32 منصوبے اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹ شامل ہیں جبکہ بیس ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگا واٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔اقتصادی منصوبوں کے لیے چھیالیس ارب ڈالر کی رقم میں سے تینتیس ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے جبکہ بارہ ار ب ڈالر کا سستا ترین قرضہ بھی دیا جائے گا جو پندرہ سے بیس سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جاسکے گا۔ یہ راہداری منصوبہ(سی پیک) پندرہ سال کے لیے ہے۔ پاکستان، ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس اقتصادی راہداری منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر پورٹ مکمل ہونے پر دوہزار تیس تک پاکستان کو تقریباًنو سے دس ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا اور پچیس لاکھ کے قریب پاکستانیوںکو روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا، صنعتی ترقی کاپہیہ چلے گا اور عوام خوشحال ہونگے۔
سی پیک پر بے بنیاد پروپیگنڈہ کے حوالے سے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں قائم کول پراجیکٹس ماحول پر بُرے اثرات مرتب کرینگے اورہمیں چین کا گھٹیا کوئلہ بھی استعمال کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے کالم نگاروں کو آگاہ کیا گیا کہ ہر کول پراجیکٹ میں کوئلے کے دھوئیں کو ٹریٹمنٹ کے بعد خارج کیا جائے گاجس سے اردگر د کے علاقوں میں رہنے والے کسی بھی شخض کی صحت پر برا اثر نہیں پڑے گا ۔ اگر کوئی شخض شنگھائی یا بیجنگ گیا ہو تو وہ وہاں سفید دھوئیں کے مرغولے دیکھ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر تو پورا چین ہی بیمار ہو جائے گا۔پاکستان میں چائینز قیدیوں سے کام لیا جاتا ہے اور انہیںکڑے پہرے میں رکھا جاتا ہے کے حوالے سے چائینز سفیرمسٹر لی جیان زو نے کہا کہ ایسی کسی بات میں کوئی صداقت نہیں بلکہ چائینز ورکروں کو حفاظت میں رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی سی پیک کا دشمن انہیں نقصان نہ پہنچائے۔چینی سفیر نے معیشت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ پاکستان کا آج جو جی ڈی پی ہے وہ آج سے چالیس سال قبل چین کا تھا۔ چین اقتصادی لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس موقعپر چین کے سفیر نے کے سی پیک کے تحت اسلام آباد سے کراچی تک بلٹ ٹرین چلانے کے عزم کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ میرا خواب ہے کہ ایک دن میں اسلام آبادسے کراچی بلٹ ٹرین پر سفر کروں ۔ صبح کا ناشتہ اسلام آباد اور دوپہر کا کھانا کراچی میں کھائوں۔ اسی طرح ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا موازنہ چائینز کمپنیوں کے ساتھ نہ کیا جائے۔ چین نے آج تک کسی ملک پر قبضہ نہیں کیابلکہ چین تجارت کرتا ہے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو ترجیع دیتا ہے۔
قارئین! سی پیک وہ منصوبہ ہے جس کو جتنی بھی گہرائی میں جس بھی طریقے سے اور جیسے مرضی پڑھ لیںآپکو یہ منصوبہ پاکستان کے مفاد میں نظرآئے گا۔ بلوچستان کے علاقے گوادر سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ چین کے مغربی علاقوں تک وسیع ہے۔ گوادر جو کہ گہرے پانیوں میں دنیا کی بہترین بندرگاہ ہے ۔ سیاسی وعسکری قیادت کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے وقت اور حالات کو درست طور پر سمجھتے ہوئے اس پورٹ کا انتظام چین کو دیا ہے جسکی اسکوسب سے زیادہ ضرور ت تھی۔ اس منصوبے میں چین اور پاکستان تو براہ راست اسٹیک ہولڈرز ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک اس منصوبے میں شمولیت کے متمنی ہیں۔ اس منصوبے کی حفاظت کے لیے پاک فوج نے بھی ایک مکمل برگیڈ اس مقصد کے لیے وقف کر دی ہے تاہم ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کو یہ منصوبہ کسی بھی صورت قبول نہیں وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز ایک کیے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت الحال کو خراب کرنے کے لیے دہشت گروں کی مالی سپورٹ کر رہا ہے جسکا واضح ثبوت کلبوشن یادو ہے جسے ہمارے خفیہ و عسکری اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔
جب سے پاکستان اور چین کے مابین سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا ہے اور گوادر بندرگاہ کو توسیع دینے اور اسے مستقبل میںمغربی دنیا سے تجارت کے فروغ کے لیے استعمال کیے جانے کی اطلاعات آ رہی ہیں بھارت کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں ۔پہلے اس نے ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کے لیے سرمایہ کاری کر کے اسے گواردر کے مد مقابل لانے کی کوشش کی مگر نہ صرف ایران بلکہ پاکستان کی جانب سے چاہ بہار اور گوادر کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے اہم قرار دینے کی بات کی گئی تو بھارت کسی نہ کسی طور سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے حربوں پر اُتر آیاجبکہ علاقے کے دوسرے بہت سے ممالک کی جانب سیاس منصوبے میں شمولیت کی خواہش اورا علانات نے بھارت کی نیندیں اُڑا دی ہیں اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ کسی نہ کسی طور اس منصوبے کو متنازعہ بنا کر ناکامی سے دوچارکیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے گلکت بلتستان کو متنازعہ قرار دے کر چین کو اس منصوبے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔