تحریر : فرخ شہباز وڑائچ ہمارے ملک میں میرٹ کا گلا گھونٹا جار ہا ہے،بد امنی ہے،سفارش کا کلچر عام ہے ایسے میں ہمارے ٹیلنٹ کو کون پہچانے گا؟ یہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں یہاں کامیابی حاصل کرنا تو دور کی بات زندگی گزارنا مشکل ہے۔یہ وہ گلے شکوے ہیں جو آپ کو ہر دوسرا نوجوان کرتا نظر آئے گا۔کیا کامیابی پلیٹ میں رکھی ہوئی ملتی ہے؟ کیا ان سب مایوسیوں کے باوجود کامیابی ممکن ہے؟ اس کا جواب 1996ء کی دو کہانیوں سے ملتا ہے۔ یہ 1996ء کی ایک سرد دوپہر تھی جب شکاگو سکول کے ایک سیاہ فام استاد نے ایک ناممکن کام کا بیڑا اٹھایا۔یہ 1996ء تک محض ایک دیوانے کا خواب تھا۔شکاگو لاء سکول کا یہ استاد باراک اوباما تھا،وہ اپنے ملنے والوں سے پوچھتا تھا کہ تم امریکہ کو کیسا دیکھنا چاہتے ہو؟ 80فیصد لوگ جواب دیتے تھے کہ وہ ا مریکہ کو بدلتا ہو ا دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسکا اگلا سوال یہ ہوتا تھا کہ ”تمہاری نظر میں امریکی صدرکیسا ہونا چاہیے اس کے جواب میں اکثریت کہتی تھی کہ ایسا شخص جو امریکہ کو ہر سطح پر تبدیل کردے۔اس نے ان دونوں سوالوں کو اپنی طاقت بنا لیا وہ امید اور تبدیلی کا لیڈر بن گیا،اس نے 1996میں ء ایلنائس سٹیٹ سے سینیٹر کا الیکشن لڑا او جیت گیا۔اس نے سینٹ میں ایسے قوانین منظور کروائے جن کا براہ راست تعلق عوام سے تھا جس سے اس کی شہرت میں اضافہ ہوا،اس کا حافظہ کمال کا تھا اسے امریکہ کہ تمام بڑے چھوٹے صحافیوں کے نام زبانی یاد تھے۔2004 ء میں اس نے قومی سینٹ کا الیکشن لڑا وہ یہ الیکشن بھی جیت گیا وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا اسے سینٹ کی کاروائی،تفصیلات ازبر ہوتی تھیں اس کی محنت کا یہ نتیجہ نکلاکہ اس کا شمار امریکہ کے طاقت ور سینیٹروں میں ہونے لگا۔
2007ء میں اس نے صدارتی الیکشن لڑنے کا علان کیالیکن اس نے ایک عجیب ٹرینڈ کا آغاز کیا ،امریکہ کے تمام صدارتی امیدوار انتخابی مہم کے لیے چندہ امیروں سے اکٹھا کرتے ہیں یہ غریبوں کے پاس چندے کی درخواست لے کر گیا جس کا رزلٹ بڑا زبردست نکلا انتخابی مہم کے لیے چھ ماہ 58ملین ڈالر اکٹھے ہوگئے۔بعد ازاں اس نے ایک ماہ میں 36ملین 80ہزار ڈالر جمع کر لیے۔اس انتھک اور راتوں کی نیند اڑا دینے والی محنت کے بعد بالاخر 4نومبر 2008ء میں امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدرمنتخب ہو گیا،5نومبر کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے آسمان کی طر ف نظر اٹھا کر دیکھا اور کہا”دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں اس کے بعد پوری فضاء اس نعرے سے گونج اٹھی کہ دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں۔
Saleem Ghori
دوسری کہانی پنجاب کے شہر بہالپور سے تعلق رکھنے والے سیلم غوری کی ہے،جو آج کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔یہ جنوری 1996ء کی بات ہے جب سلیم غوری نے اپنی کمپنی نیٹ سول کی بنیاد رکھی۔وہ ہر روز دفتر آنے سے پہلے اپنی بیوی کو کہہ کر آتا تھا کہ مجھے آفس فون کرتے رہنا تاکہ لوگ کہیں کہ اس آفس میں فون آتے ہیں۔اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی یقین کی دولت تھی جس سے وہ مالا مال تھا۔سلیم غوری کا کہنا ہے کہ میں اکثر لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ خواب دیکھتے ہیں؟جواب میں لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں اور جھجک کر اثبات میں سر ہلاتے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنے خوابوں کی سچائی پر کبھی یقین نہیں رہا،وہ خوابوں کو کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ایسی مخلوق جس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔آج مجھے مختلف تعلیمی اداروں ،محفلوں اور اجلاسوں میں بلایا جاتا ہے کہ میں اپنی کامیابی کی کہانی سنائوںکیوں کہ اس کامیابی کا شروع دن سے میں واحد گواہ ہوں۔
میری کہانی کچھ زیادہ گنجلکوں کی شکار نہیں ہے،انتہائی سادہ ہے،ایک عام سے بچے کی کہانی جس کے بارے میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ میںنے ہمیشہ غلط فہمیوں کا شکار ہونے کی بجائے زندگی کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔محنت کی عادت مجھے میرے اجداد سے ملی ہے اس عادت نے میری راتیں بھی روشن رکھی ہیں۔میری کہانی صرف کامیابی کی نہیں بلکہ ان چالیس برسوں کی ہے جس میں،میں نے تنگدستیاں برداشت کیں،تکلیفیں دیکھیں مگر میرے مزاج میں موجود عزم و ارادے کی پختگی نے مجھے یقین کے کھونٹے سے باندھے رکھا۔میں امید سے جڑا رہا اور اپنی غلطیوں سے سیکھتا رہا،میں نے اپنے وقت کواپنے آپ کو بے کار میں ضائع کرنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں گزارا۔نیٹ سول کا پہلا آفس 600مربع فٹ میں تھا۔
جبکہ آج نیٹ سول رنگ روڈ لاہور اور ڈیفنس سیکم کے سنگم پر ایک پر شکوہ عمارت کی صورت میں موجود ہے۔آج سلیم غوری اور نیٹ سول دونوں کامیاب ہیں دونوں دنیا میں پاکستان کی پہچان ہیں۔چلیے آج ہی اپنے ساتھ ایک عہد کیجیے اس خواب کی تکمیل کے لیے جان لڑا دیں گے جو آپ نے دیکھاتھا، کامیابی کی خواہش کو اپنی محنت کے پانی سے سیراب کریں گے ۔جس لمحے مایوسی اور ناامیدی آپ کے مقصد میں حائل ہونے لگے تویہ ضرورسوچیے گاکہ کچھ نہیں سے سب کچھ ممکن ہے۔۔!