محبوب کی ناراضگی بلا شبہ اِس دنیا کا سب سے بڑا غم ہے محبوب اگر مرشد بھی ہو تو پھر یہ غم جان لیوا بن جاتا ہے مرشد اگر نگاہ پھیر لے یا مرشد کی آنکھوں میں شناسائی کی جگہ اجنبیت کا عکس لہرانے لگے تو مرید کی سانس کی نالی پر ہمالیہ آ جاتا ہے جسم میں خون کی جگہ بچھو دوڑنے لگتے ہیں ‘ دل و جان جسم کبا ب کی سیخ پر پرو کر انگاروں پر رکھ دیا جاتا ہے ایسا ہی نازک لمحہ شیخ جمال الدین ہانسوی جو بابا فرید الدین گنج شکر کے لاڈلے ترین مرید تھے اُن کی زندگی میں بھی آیا جب آپ نے بابا فرید سے ملتان جانے کی اجازت مانگی تو بابا فرید نے غضب ناک لہجے میں کہا جائو میری نظروں سے دور ہو جائو اور ملتان جا کر اپنا منہ کالا کرو یہ الفاظ نہیں زہر آلودہ خنجر تھے جس سے مرید جمال الدین ہانسوی کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ابھی مرشد کے منہ سے نکلے الفاظ کی باز گشت جاری تھی کہ جمال الدین ہانسوی کا سینہ نور معرفت سے خالی ہو گیا ساری روحانی قوتیں سلب ہو گئیں سارے رنگ سارے ذائقے ختم ہو گئے مرشد کی توجہ سے جمال الدین ہانسوی جس کیف و سرور مستی نشے کو ہمہ وقت محسوس کر تے تھے وہ سب ختم ہو گیا تھا نخلستان بے آب و گیاہ ریگستان بن گیا باطنی دنیا کا گلشن اجڑ گیا تھا ویرانی بنجر پن اداسی دکھ درد ہجر بے کیفی جسم کے انگ انگ میں زہر گھول رہی تھی۔
جمال الدین ہانسوی جب مرشد کا لاڈلہ تھا تو خو دکو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا تھا آج جب وہ دنیا کا بد قسمت اور قلاش ترین آدمی جس کی ساری زندگی کی کمائی ایک لمحے میں لوٹ لی گئی ہو ‘ شدت کرب سے جمال الدین کا روشن چہرہ کالا سیاہ ہو گیا مرید کواپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا فوری پلٹ کر معافی مانگی لیکن مرشد ناراض ہو چکا تھا حکم جاری کر دیا کہ جمال الدین کو خانقاہ سے نکال دیا جائے پھر کبھی آنے کی اجازت نہ دی جائے اہل دنیا اور مریدین حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ جس کے بارے میں بابا فرید کہا کر تے تھے کہ کو ئی اپنا جمال بھی کسی کو دیتا ہے لیکن آج اُسی جمال کو دھکے دے کر وقت کے حوالے کر دیا تھا جمال الدین ہا رے ہو ئے انسان کی طرح مرشد کے در سے نکلے تو شدت کرب اور ہجر کی آگ سے گریبان چاک کر ڈالا ‘ وحشت و جنون پچھتاوے کی آگ میں دیواروں سے ٹکریں مارتے ہو ئے جنگلوں کو نکل گئے کہ اُن کا مرشد اُن سے ناراض ہو گیا تھا جسم زخمی زخمی لہو لہان کر لیا محفل کی جان جمال چلا گیا تھا کو ئی ذکر کر تا بھی تو بابا فرید بجھے لہجے میں کہتے جانے والا چلا گیا اب اُس کا نام بھی کو ئی نہ لے اب کسی میں جمال کی سفارش کی جرات نہ تھی کیونکہ سفارش کر نے والا خود ہی زیر عتاب آگیا تھا گردش روز شب دنو ں ہفتوں کے بعد مہینے گزرتے چلے گئے۔
جمال کو معافی نہ ملی مرشد کی دور ناراضگی جمال الدین کو اپنا ہوش نہ رہا پھٹے پرانے چیتھڑوں جیسے کپڑے سر جسم چہرے پر خاک در خاک چہرہ کمزور بیمارکالا سیاہ ہو گیا جو بھی جمال کو اِس حالت میں دیکھتا لرز جاتا کہ روشن چہرے والا یہ جمال وہی ہے جس کے روشن چہرے سے ہر وقت نور پھوٹتا تھا جس کے چہرے پر صبح سویرے کا اجالا ہر وقت رقص کر تا تھا جمال الدین دیوانہ مجذوب پاگل بن کر جنگلوں بیابانوں میں پھرتا کوئی پو چھتا اِیسی حالت کیوں بنا رکھی تو جمال الدین کہتا میرا مرشد ناراض ہو گیا میرا تعارف ہی ختم ہو گیا میرے سینے کا نور دل کا قرار میری جان نچوڑ لی گئی اب میں زندہ لاش ہوں جو اپنی زندگی کے باقی دن پو رے کر رہا ہوں اُس گھڑی کا منتظر ہوں جب مرشد مجھے معاف کر دیں گے شدت کرب غم سے جمال الدین گریبان چاک کر کے آسمان کی طرف دیکھنا جنگل کی طرف بھاگ جاتا ‘ جمال الدین کے دن رات ہجر کے انگاروں پر سلگتے گزر رہے تھے کہ ایک دن عالم نامی سوداگر سے ملاقات ہوئی یہ سوداگر بابا فرید کا بہت چاہنے والا تھا اور جمال الدین اور بابا فرید کے رشتے سے بھی واقف تھا۔
جمال الدین کوپھٹے پرانے کپڑوں میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے دیکھا تو زاروقطار رونے لگا اور کہنے لگا اے جمال یہ تیری حالت کیسے ہو گئی تیرے اوپر کون سا ظلم ہو گیا توجمال الدین نے اپنی گستاخی کا حال سنایا تو عالم سوداگر لرزنے لگا کہ تم تو دوسروں کی سفارش کیا کر تے تھے اور مرشد کی آنکھ کا تارا تھا لاڈلا تھا تیر ی سفارش کے تو ہم طلب گار رہتے تھے تیری وجہ سے تو ہم مرشد کی حضور ی پاتے تھے یہ تم کس ہجر میں تڑپ رہے ہو یہ دوری یہ فاصلے تو تیر ی جان لے لیں گے اِ س طرح تو زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے گا مرشد سے یہ جدائی تیری جان لے لے گی تو جمال الدین اپنا سر زمین پر مارتے ہو ئے بو لا میرا شہنشاہ میرے حال سے واقف ہے اگر کبھی تم شیخ کی بارگاہ میں جائو تو اِس غلام کی حالت گوش گزار کر دینا میری معافی کی درخواست کر دینا کہ غلام اب زیادہ دوری برداشت نہ کر پائے گا۔
اِس سے پہلے کہ ہجر کی آگ میری زندگی چھین لے غلام کو معافی کا پروانہ عطا کر دیں غلام کی آنکھیں مرشد کے دیدار کی آس میں کہیں بجھ نہ جائیں اِن بے نور آنکھوں کو اپنے روشن چہرے کی زیارت کا اعزاز بخش دیں ورنہ یہ آنکھیں بجھ جائیں گی سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جائے گی میں ندامت کی آگ میں کوئلہ بن چکا ہوں آخری چنگاری بجھنے سے پہلے غلام کو قدموں سے لپٹنے کی اجازت دی جائے عالم سوداگر جمال الدین ہانسوی کی حالت زار دیکھ کر زاروقطار رونے لگا اور دل میں ارادہ کر لیا کہ جا کر شہنشاہ ِ معرفت بابا فرید کی بارگاہ میں جمال الدین کے بارے میں بتائے گا جو ہجر کے سلگتے ریگستان میں تابناک چہرے کی جگہ کو ئلہ بن چکا تھا جس کے چہرے پر زندگی کی کو ئی بھی رمق باقی نہیں تھا جو ہر سانس کے ساتھ وصال کی بھیک مانگ رہا تھاپھر عالم سوداگر بارگاہ مرشد میں حاضر ہو گیا دیوانوں کا ہجوم تھا اِس لیے اب عالم سوداگر اُس وقت کا انتظار کر نے لگا جب مرشد اکیلے ہوں تا کہ وہ جمال الدین کی حالت زار اور اُس کی التجا گوش گزار کر دے پھر موقع آگیا بابا فرید کی عالم سوداگر پر نظر پڑی تو قریب بلایا حالات دریافت کئے تو عالم بولا میرے مالک آپ کی نگاہ کے طفیل میرے حالات بہت اچھے ہیں لیکن پھر بات کئے بغیر عالم بلک بلک کر پھر دھاڑے مار کر رونے لگا تو بابا فرید شفقت سے لبریز لہجے میں بولے عالم کیا ہوا تجھے کونسا غم رلا رہا ہے مرشد کا حوصلہ پا کر عالم سوداگر دوڑ کر پائوں سے لپٹ گیا قدموں کے بوسے لیتے ہوئے بو لا جناب میں تو ٹھیک ہوں لیکن آپ کا جمال ہجر کی آگ میں کو ئلہ بن چکا ہے دیوانہ مجذوب ہے جو جنگلات بیابانوں میں ندامت کی دھوپ میں ننگے سر ننگے پائوں دوڑتا پھرتا ہے۔
اگر آپ نے اُسے معاف نہ کیا تو فراق کا روگ اُس کی جان لے لے گا میرے مالک اپنے لاڈلے مرید کو معاف کر دیں جمال کا نام اور حالت زار سن کر بابا فرید کے چہرے پر اداسی برسنے لگی جمال کا روشن چہرہ اور لاڈلا پیار یاد کر کے بابا فرید کی آنکھیں بھیگنے لگیں اور بو لے اُس نے خواجگان چشت کی محبت پر کسی اور کی محبت کو ترجیح دی اب وہ جائے ملتان جہاں جانا چاہتا تھا تو عالم بو لا میرے شہنشاہ وہ وقتی خیال تھا جو آیا اور چلا گیا مہینے گزر گئے اگر اُس نے ملتان جانا ہو تا تو چلا جاتا وہ آج بھی اُس غلطی کی آگ میں جھلس رہا ہے اُسے معاف کردیں وہ آپ کا تھا اور ہمیشہ آپ کا ہی رہے گا تو بابا فرید بولے مجھے پتہ ہے وہ میرا تھا اور میرا ہی رہے گا اُسے کہو اُس کے لیے آج بھی میرے دل اور درگاہ کے دروازے کھلے ہیں۔
بابا فرید پیکر شفقت بن چکے تھے عالم سوداگر نے جاکر جب جمال الدین کو بتایا تو خوشی کی چیخ مار کر سر کوز میں مارا تو پیشانی سے خون کے قطرے آگئے پھر اِسی زخمی پیشانی کے ساتھ بارگاہ فرید میں حاضر ہوا شہناہ پاک پتن کی نگاہ جب لاڈلے مرید کے خون آلودہ جھلسے ہو ئے چہرے پر پڑی تو بے قرار ہو کر بو لے اے میرے جمال یہ کیا حالت بنا رکھی ہے کوئی اِس طرح بھی اپنا جمال برباد کر تا ہے بابا فرید گلو گیر لہجے میں بولے کہ حاضرین بھی رونے لگے تو جمال بولا یا شیخ یہ تو کچھ بھی نہیں سایہ شیخ سے جدا ہونے والوں کا یہی انجام ہو تا ہے مجھے آپ کے ہجر نے جلا ڈالا زندہ تھا اِس آس پر کہ پھرآپ کا روشن چہرہ دیکھ سکوں بابا فرید اٹھ کھڑے ہو ئے اور بولے اے میرے جمال آکہ خواجگان چشت کا نور معرفت تیرا منتظر ہے اب جدائی کا وقت ختم ہے جمال بچھڑے ہو ئے بچے کی طرح مرشد کے قدموں سے لپٹ گیا جس طرح کو ئی بچھڑا بچہ اپنی ماں کے ، بابا فرید نے لاڈلے مرید کو اٹھایا سینے سے لگایا اور کہاآج سے میرا جمال قطب عالم ہے اِس کے ساتھ ہی جمال الدین کا نور لوٹ آیا چہرہ پہلے سے بھی دوگنا چمکنے لگا جیسے چودھویں کا چاند اپنے جوبن پر چمک رہا ہو۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org