تین سال پہلے وہ وقت آ ہی گیا کہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ جنرل حمید گل اس دنیا میں نہیں رہے۔ظاہر ہے جو آیا ہے اس نے جانا ہے بقاء صرف اس ذات کو ہے ہمیشہ سے تھی اور رہے گی ۔بلال اظفر عباسی نے لاہور سے فون کیا کہ میری حاظری لگوا دینا میں لاہور ہوں نہیں آ سکتا مجھے تو انجینئر شفیق میتلا اور برادر محترم نسیم محمود آف ریاض کی بھی حاظری لگوانا ہے جن سے وہ لگاؤ رکھتے تھے۔جنرل صاحب سے میری یاد اللہ عرصہ بیس سال سے ہے وہ جدہ تشریف لائے تو مہران ہوٹل میں ایک سیمینار سے خطاب کیا وہ دور بھی ستم ظریفوں کا تھا میری انقلاب اور جمہوری راستوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی بعد میں اے پی ڈی ایم ہم اکٹھے ہوئے اور یہ سلسلہ مرتے دم تک قائم رہا۔جب بھی فون کرتا کھنکتی ہوئی آواز میں افتخار کہہ کر پکارتے تو دل باغ باغ ہو جاتا۔اوہ مری میں تھے وہیں برین ہیمرج ہوا اور جان مالک حقیقی کے حوالے کر دی۔جنرل صاحب کمال کے آدمی تھے سکالر تھے اور بلا کے مقرر تھے ان کے خیالات کو سوچتا ہوں تو کبھی کبھی کہہ اٹھتا ہوں کہ سچ کہتے تھے کہا کرتے تھے عمران سے قوم کو امیدیں ہیں مگر اسے کوئی سمجھائے کہ انتحابات سے تبدیلی نہیں لاسکتا وہ لوہے کا سر لے کر بھی ان دیواروں سے ٹکریں مارے پاش پاش ہو جائے گا۔
جنرل صاحب سچ کہتے تھے یا نہیں یہ تو وقت بتا رہا ہے اور بتائے گا۔اور وقت نے بتا دیا کہ اس مرد حر نے دیواریں گرا دیں اور وہ کل پاکستان کے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے جا رہا ہے۔ جدہ میں بیس سال پہلے ہونے والی ملاقاتیں گہرے تعلق میں بدل گئیں۔۹۰۰۲ میں ایک بار پھر گردش ایام کو ٹال کے میں سعودی عرب پہنچا تو اطلاع ملی جنرل صاحب الریاض آئے ہوئے ہیں میں حفر الباطن سے سینکڑوں کلو میٹر گاڑی چلا کر ریاض آیا۔برادر شفیق میتلا اور نسیم محمود کی معیت میں ملاقات ہوئی یہ ملاقات محبت اور لگاؤ میں اضافے کا باعث بنی۔بعد میں ایک بار مدینہ منورہ آئے تو تو میں جدہ سے ڈرائیو کر کے فیملی سمیت پہنچ گیا۔ربیعہ اور بیگم بھی ساتھ تھیں برادر جہانگیر مغل کے ہمراہ ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی میرے بچوں کی شادی پر عبداللہ عظمی گل نے بھرپور شرکت کی۔مجھے گھر کا فرد سمجھتے تھے۔ان کے گھر جب بھی گیا امت مسلمہ کے زوال اور اس کے عروج کی بات کرتے مجھے خاص طور پر وہ پتھر دکھایا جو دیوار برلن کا تھا کہا کرتے یہ مجھے تحفہ دیا گیا کہ آپ نے جہاد افغانستان میں بڑی کامیابی حاصل کی اور ہمیں حوصلہ دیا کہ ہم نے بھی کمیونزم کا جنازہ نکال دیا۔
جنرل صاحب کمال کے شخص تھے ایک بار میں نے بیٹی کے بارے میں کہا کہ پڑھتی نہیں تو کہنے لگے ایسا نہ کہیں ربیعہ میری بیٹی ضرور پڑھے گی اور اچھے نتائیج لائے گی۔ان کی باتیں کون کون سی یاد رکھیں مجھے ایک بار جنرل اسد درانی کی کلاس لینے کو موقع مل گیا موصوف نے ہمارے گھر بار تباہ کئے تھے اپنے سعودی عرب میں قیام کے دوران جہاں وہ سفیر تھے ان کی ظلم و ستم کی داستانیں عام تھیں مجھے بھ رگڑا لگ گیا۔یہاں پنڈی کے ہوٹل میں ایکس سروس مین سوسائٹی کے خلاف ایک تقریب ہوئی میں بھی مہمان مقرر تھا دوران تقریر سٹیج پر بیٹھے اسد درانی کو میں نے آڑے ہاتھوں لیا تو پیچھے سے میری قمیض کھینچتے رہے۔بعد اس واقعے کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔اپنے مکان پر میں فکری نشتیں کیا کرتا تھا ایئر پورٹ سوسائٹی میں میرے غریب خانے پر آئے تو میں نے اپنی پارٹی کے سینئر لوگوں سے انہیں ملوایا اس نشست میں بھی جنرل صاحب نے چار گھنٹے تک اہم موضوعات پر بات کی۔ مزے کی بات ہے سال پہلے ایک دن فون آیا کہنے لگے افتخار میں جدہ جا رہا ہوں یار بتاؤ ایک رات کے لئے مکہ مکرمہ میں ہوٹل لینا ہے کتنا کرایہ ہو گا۔میں نے کہا جنرل صاحب میرا گھر حاظر ہے بچے آپ کو ایئر پورٹ سے لے جائیں گے کہنے لگے نہیں یار سستا سا کمرہ لے دینا۔ دوستو!فوج کے بار ے میں زبانیں لمبی کرنے والے جان لیں کہ فوج کے سارے جرنیل مشرف نہیں ہوتے۔اللہ بھلا کرے سعودی حکومت کا انہیں جب پتہ چلا کے وہ آ رہے ہیں تو انہوں شاندار پروٹو کول دیا۔
البتہ بچوں سے ملے اور مجھے کال بھی کی۔اللہ نے انہیں نیک اور صالح اولاد سے نوازاہے عبداللہ گل اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ہم پچھلے ماہ برادر بلال عباسی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں اکٹھے تھے برادر حافظ سجاد قمر کا بھی ساتھ تھا ان سے خیریت دریافت کی۔آج وہ ہم میں نہیں دنیا میں کروڑوں اربوں لوگ ہیں جنرل صاحب اب ان میں نہیں لیکن ان کی یادیں تا دیر رہیں گی۔ان کی اہلیہ شدید علی رہتی ہیں اور ایک عرصہ ہوا ڈاکٹروں نے انہیں جواب دے دیا تھا۔عبداللہ عمر اور عظمی کے سر سے سایہ اٹھ گیا ہے مگر دعاؤں کا منبہ ان کے پاس موجود ہے۔جنرل صاحب کے لیکچر ان کے زریں خیالات کبھی بھول نہ پائیں گے۔امت مسلمہ ایک سکالر سے محروم ہوئی۔وہ ہم سے عملا جدا تو ہوں گے لیکن سچی بات ہے وہ کبھی جدا نہ ہوں گے۔ان کے ساتھ گزارے یہ سال میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ان کی بھارت کے خلاف گھن گرج تا دیر کانوں میں گونجتی رہے گی۔وہ امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کو دیکھنا چاہتے تھے۔اقبال کے شاہینوں سے انہیں امیدیں وابستہ تھیں،وہ چلے گئے مگرمجھے افسوس ہے بھارت کے خلاف جنرل مشرف کو مخصوص حلقے بڑھاوا دیتے ہیں وہ جنرل حمید گل سے زیادتی کرتے رہے۔کہاں مشرف جیسے پارٹی باز اور کہاں جنرل حمید گل جیسا دینی فکر کا حامل فرد۔۔مجھے اللہ نے ان سے قربت اور دوستی سے نواز رکھا ہے۔ہم اسلام پاکستان سے محبت کی لو انہی سے لیتے رہے۔
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں آ گیا پر تو کہاں گیا ہے میرے شہر کے مسافر تو ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو
جنرل صاحب کو اس دنیا سے گئے تین سال ہو رہے ہیں۔ان سالوں میں کتنے لوگ اس دنیا سے گئے ان میں بہت سے جرنیل بھی تھے لیکن قوم اس مرد جری کو نہیں بھولی۔سچی بات تو یہ ہے کہ جنرل صاحب کی سوچ اور عمران کا انداز ملتا جلتا ہے۔عمران اقتتدار کے ایوانوں میں جا رہے ہیں ان کے ساتھ ان کے منہ بولتے فیصلے بھی سامنے آ رہے ہیں ان کے سپیکر بھی فکر مودودی اور فکر جنرل حمید گل سے متاثر ہیں اسلامی جمیعت طلبہ اور پاسبان میں متحرک اسد قیصر سپیکر بن چکے ہیں۔
الیکٹیبل سوچ الیکشن میں منہ کی کھا چکی ہے کارکن جیتے ہیں وہ کارکن جو اوائل دنوں میں عمران خان کے ساتھی تھے۔شاہ فرمان،شاہ محمود،فیصل جاوید،شفقت محمود،شیرین مزاری فیاض چوہان جازی خان عامر کیانی مراد راس میاں اسلم محمود الرشید،علی زیدی،شمیم نقوی اور بے شمار پرانے لوگ اسمبلیوں کی زینت بنے ہیں۔فکری لوگوں کا اتنی بڑی تعداد میں آنا اور عمران خان کی جانب سے اپنے پرانوں کو یاد کرنا اس سوچ کے خلاف گیا ہے کہ الیکٹیبل وزن رکھتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو قاسم سوری ڈپٹی سپیکر نہ بنتے اور نہ اسد قیصر سپیکر۔جنرل صاحب کو ہر اس گھڑی یاد کرتا ہوں جب پاکستان بدلنے کے دروازے سے گزرتا ہے۔آج وہ ہوتے تو یقینا خوش ہوتے۔تحریک انصاف انہیں سلام پیش کرتی ہے۔جنرل حمید گل ہمیشہ یاد رہیں گے۔