دنیا میں شایدہی کوئی ایسا مسلمان ہو جو یہ نہ مانتا ہو کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں اور قیامت تک ان جیساکوئی عظیم انسان پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی UNDERSTOODہے کہ جو انسان جس قدر عظمت واہمیت کا حامل ہوتاہے اسی کے مطابق اس کو عزت دی جاتی ہے اوراسے یاد کیا جاتاہ ے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ وہ عظیم کیوں ہیں اور ان کی عظمت کے گن کیوں گائے جاتے ہیں؟
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا پر جتنے احسانات حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے ہیں دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا انسان بھی اس کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ بڑے بڑے سائنس دانوں، دانشوروں اور مفکروں نے اپنی ایجادات و تحقیقات سے انسانوں کو بلاشبہہ نہایت اعلیٰ ترین سہولیات فراہم کیں اور لوگوں کی سوچوں کو رخ متعین کرنے کی کوششیں کیں مگران تمام فوائد و سہولیات کے با وصف یہ صنعتی اور فکری انقلاب دنیا والوں کے لیے مضر ثابت ہوا اور ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے اسی لیے مشینوں یعنی عصری ایجادات کودل کے لیے موت قرار دیا ہے۔ اس کے برخلاف حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں وہ انقلاب برپا کیا کہ دنیا کے سارے تعلیمی، تعمیری، معاشی، معاشرتی، مذہبی ،تہذیبی، سائنسی، ابلاغی اور فکری و ذہنی انقلابات اسی انقلابِ محمدی کے مرہون منت ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے سب سے بڑے محسن ہیں اور اس احسان مندی کا تقاضا ہے کہ ان کی شایانِ شان انہیں یاد کیا جائے اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔ ربیع الاول کی بارہ تاریخ چوں کہ اسی عظیم انسان اور اسی عظیم محسن کی تاریخ ہے اس لیے اس دن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منائی جاتی ہے، چراغاں کیا جاتا ہے، خوشیاں منائی جاتی ہیں، مبارک بادیاں دی جاتی ہیں اور ان کی عظیم قربانیوں کو یاد کیا جاتاہے۔ قرآنِ کریم کی بہت ساری آیاتِ کریمہ، صحابۂ کرام کا طرزِ عمل اور بزرگوں کے اقوال و معمولات اگر ایک طرف رکھ دیں تو بھی ہماری عقل و فہم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ محسن کو یاد کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ انسانی فطرت اور انسانی نفسیات کا بھی یہی تقاضا ہے ہمیشہ اپنے محسن کے گن گائے جائیں اور حتی المقدوران کی جناب میں گلہاے عقیدت نذر کیے جائیں۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جشن کا انعقاد ہر مسلمان کی فطری ونفسیاتی ضرورت ہے۔اس تناظر میں ہمیں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ حضور کی آمدکی خوشی میں اس جشن کا انعقاد کیوں نہ کیا جائے ؟جسے اللہ عزوجل نے فہم وادراک سے نوازاہے وہ یقیناحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی قیمت سمجھتے ہیں اور حسب توفیق ان کی یادوں کے جشن کا اہتمام کرتے ہیں اور جسے اس لازوال اور بے پایاں نعمت کا احساس ہی نہیں وہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑا مانتے ہیں لیکن ان کی آمد پران کا”دن ”نہیں مناتے۔
Eid Milad Nabi
عید میلاد النبی کادن یقینادنیاکی تاریخ کاسب سے بڑادن ہے اسی لیے اس دن کی آمدپراسے” بڑا دن”سمجھ کر خوشی منائی جاتی ہے ۔مسلمان جانتے ہیں کہ اس عظیم انسان ،اس کے لائے ہوئے عظیم انقلاب ، اس پراتاری گئی عظیم کتاب اوراس کے ذریعے پیش کیے گئے عظیم کردار کو کماحقہ خراجِ عقیدت نہیں پیش نہیں کیاجاسکتامگرحتی المقدوران سے جوہوسکتاہے وہ کرتے ہیں اوراپنے عظیم محسن کاشکریہ اداکرتے ہیں۔گویا عیدمیلادالنبی حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاشکریہ اداکرنے کی ایک شکل ہے ۔اس دن انہیں یادکرکے ان کے فرمودات پرعمل کرناکاعہدکیاجاتاہے ۔اگرایسانہ کیاجائے تویہ بھی ایک طرح سے احسان فراموشی ہوگی ۔بلاشبہہ اگران کے فرمودات وارشادات پرعمل کیاجانے لگے تویہ سب سے بڑاخراج عقیدت ہوگالیکن ہمیں یادرکھناچاہیے کہ دنیاکے بھی کچھ اصول ہوتے ہیںان میں کاایک اصول یہ بھی ہے کہ بڑے عظیم لوگوں کاایک خاص دن پریادکیاجاتاہے اوریادکرنے والے احسان شناس ٹھہرائے جاتے ہیں۔آپ پوری دنیاکاسروے کرلیں، کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھاکردیکھ لیںہرجگہ یہی ملے گاکہ وہاں کے شہری اپنی بڑی تاریخوں کوہمیشہ یادرکھتے ہیں ،اپنے ہیرئووں کوتذکرہ کرتے ہیں اوربہت اہتمام سے کرتے ہیں۔اس کامطلب یہ نہیں کہ ایک خاص دن معین کرلینے سے کسی بڑی شخصیت کی توہین ہوجاتی ہے یاایک دن یادکرکے بقیہ دنوں میںانہیں فراموش کردیتے ہیں۔یقیناسارے دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہیںسارے لمحے اسی ذات گرامی سے منسوب ہیںمگرخاص ١٢تاریخ کویہ جشن ا س لیے منایاجاتاہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اس سے بڑادن کوئی اورنہیں ہے ۔جس طرح ہرکام کے لیے کچھ اوقات معین ہوتے ہیں مثلاًپنچ وقتہ نمازوں کوان کے وقت پراداکیاجاتاہے ،روزے ہرسال رمضان المبارک میں رکھے جاتے ہیں اور ذی الحجہ میں حج کیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک وقت معین پرحج کرنے ،نمازپڑھنے ،روزہ رکھنے سے بندے اللہ تعالیٰ کوصرف ایک وقت مخصوص پرہی یادکرتے ہیں اور باقی دنوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔
ہم سرسید احمد خاں کی ولادت یاوفات کی تاریخ کویادرکھتے ہیں اوراس دن کوسرسیدڈے سے موسوم کرتے ہیں،مولانا ابوا لکلام آزاد کو یاد کر کے ان کی وفات اور ولادت کی تاریخ پر محافل کا انعقاد کر کے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، شہید اشفاق اللہ خاں، ٹیپو سلطان، حیدر علی ، عبدالحمید ادریسی، راجیو گاندھی، موہن داس کرم چندر گاندھی عرف بابائے جمہوریت وغیرہ وغیرہ کو ان کے وصال یا پیدائش کے دن پر ایک ساتھ جمع ہو کر انہیں یاد کرتے ہیں تو عقل و فطرت کا تقاضا ہے کہ کیوں کہ نہ اس عظیم انسان کو بھی ایک دن متعین کر کے یاد کیا جائے جوان سب سے بھی بڑاعظیم ہے۔
ہماری کی شادی ہوتی ہے تو ہم ہر سال Aniversery مناتے ہیں، اپنے بچے کا برتھ ڈے مناتے ہیں، جس دن ہم کسی بڑی بیماری سے شفایاب ہوتے ہیں توا س دن کو ایک تاریخی حیثیت سے یاد رکھتے ہیں اور جب وہ دن آتا ہے تو اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آج کے دن یا آج کی تاریخ میں اس نے ہمیں اس مہلک بیماری سے نجات دی۔ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہو جائے تو اس تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اس تاریخ کا ہمیشہ اپنے احباب میں ذکرکرتے رہتے ہیں ۔ہمارے ملک ہندوستان میں ملک کے بڑے بڑے لیڈروں کوبھی ان کی تاریخِ وصال اور تاریخِ ولادت پر یاد کیا جاتا ہے بلکہ بعض لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حکومت نے ان کے نام سے دن مقرر کر دیے ہیں اور اس دن باقاعدہ سرکاری دفاترکی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ایساا س لیے کیاجاتاہے کہ ان کی خدمات کوسراہاجائے اورنئی نسل کوا ن کی خدمات سے روشناس کرا کر نئی نسل کے اندر ان کے جیسا بننے کی تحریک پیدا کی جائے۔ خود اپنے ہی ملک کو لے لیں ہم ہرسال ١٥اگست کو یوم آزادی ا س لیے مناتے ہیں کہ اس دن ہمارا ملک فرنگیوں سے آزاد ہوا تھا اور ٢٦ جنوری کو یوم جمہوریہ اس لیے مناتے ہیں کہ اس دن آئین ہند کا نفاذ کیا گیا تھا۔ آپ کوئی تنظیم ،کوئی ادارہ ،کوئی مدرسہ یا اسکول قائم کرتے ہیں توا س کے یوم تاسیس پر ایک پروگرام ضرور منعقد کرتے ہیں تا کہ جس مقصدکے لیے آپ نے ادارہ قائم کیا ہے اس کی یاد دہانی ہوتی رہے اورا س کے مقاصد سے دل معمور رہیں۔ کوئی خاص دن معین کرنے کا مطلب یہ تونہیں کہ پورے سال اداروں اور تنظیموں کا نصب العین پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
ہم اگر تنہائی میں کبھی اپنی ذات سے ملاقات کریں اور اپنے اندرون میں جھانک کرپ وچھیں تو مارا ضمیر اس سوال کاجواب ضرور دے گا کہ جس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تشریف لائے مسلمانوں کے لیے اس دن اور تاریخ سے بڑادن اور بڑی تاریخ کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر اس پہلو سے سمجھا جائے تو ہمیں کبھی بھی کسی سے کوئی ناراضی نہ ہو۔ اس میں خلافِ اسلام اگر کوئی چیزنہ ہو توا س کے جائز ہونے میں کسی کو کیا شبہہ ہو سکتا ہے ۔؟ ہر مسلمان کو اسلام کا یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ نے جس چیز کو حرام کیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور جسے حلال کہا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حلال ہے اور جس چیز کے بارے میں سکو ت اختیار فرمایا ہے تو اس میں دیکھا جائے گا کہ اگر اس میں خلافِ اسلا م چیزیں نہیں ہیں تو حلال ہے اور خلافِ اسلام چیزیں ہیں تو حرام ۔ذہن اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے میں آخر حرام کیا ہے اور بدعت کیا چیز ہے؟ اگر آپ غور کریں گے تو دنیا کی ہر نئی چیز بدعت قرار پائے گی تو کیا عصری ایجادات سے استفادے ناجائز اور حرام کہہ دیا جائے گا؟ ہاں، جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بعض مقامات پرجو خرافات ہوتی ہے وہ بلاشبہ بدعت ہے اور ناجائز و حرام ہے ا س کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ لیکن محض اسی بنیاد پر پورے جلوس اور پورے خوشی کے ماحول کو دنیاکا کوئی بھی عقل مند انسان ناجائز نہیں کہے گا۔ دنیا میں آج ہزاروں واقعات ایسے ہو رہے ہیں کہ لوگوں نے ان میں اپنی طرف سے اپنی نفسیات کی تسکین کے لیے کچھ چیزوں کا اضافہ کر لیا ہے تو کیا محض ان خرافات کی وجہ سے اس پورے تاریخی واقعے کوہی مسترد کر دیا جائے گا۔؟
ہم اپنے اردگرد کا مشاہدہ کریں کہ آج کی شادی وغیرہ کی تقریبات میں فضول خراچی کا انتہا کی جاتی ہے، آج یہ شادیاں درجنوں خرافات کا مجموعہ بن کررہ گئی ہیں تو کیا محض اس وجہ سے شادی نہ کرنے کا مشورہ دیا جائے گا۔؟ دوسری بات یہ ہے کہ عید میلاد النبی منانے والے ایک نہیں ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں ہیں۔ اگر ہم انہیں منع کریں گے اور ناجائز و بدعت کہہ کر اس سے برگشتہ کریں گے تو یقین جان لیجیے کہ نقضِ امن کاخطرہ بڑھ جائے گا، تصادم ہوگا، نفرتیں پھیلیں گی اور پھر سلسلہ نہ جانے کہاں جا کر ختم ہو گا۔ اس لیے اگر کوئی عید میلاد پر خوشی نہیں مناتا تو نہ منائے، چراغاں نہیں کر تا نہ کرے، مبارک باد نہیں دیتا تو نہ دے لیکن منانے والوں کو اس سے منع تونہ کرے۔ دنیا میں قدم قدم پر کانٹے بچھے ہوئے ہیں اس میں مزید کانٹے بچھانے کی ضرور ت نہیں بلکہ پھول تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کانٹنے بچھائیں گے تویہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی اور ہر پیر لہولہان ہوجائے گا۔ ہم اپنے بڑوں اور محسنوں کا دن مناتے ہیں۔ اگر کوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑا اور محسن نہیں مانتا تو ٹھیک ہے وہ نہ منائے اس پر کوئی جبر نہیں لیکن کم از کم منانے والوں کو روکنا تو بند کر دے۔ ہم سب آزاد پیدا کیے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظریات کی غلامی کے سوا ہم کسی کے غلام نہیں ہوسکتے۔ آپ کو آپ کا مذہب مبارک اور ہمیں ہمارا دین، لَکُمْ دِےْنُکُمْ وَلِیَ دِےْن۔
یہ جمہوری ملک ہے یہاں ہر کسی کو اپنے اپنے مذہب پر اپنے اپنے طور پر عمل کرنے کاحق ہے لیکن مذہب پر عمل کرنے کامطلب بھی نہیں خلافِ مذہب باتوں کو فروغ دیا جائے اور خلافِ مذہب باتوں کو مذہب سمجھ کر عمل کیا جائے۔ اگر ایسا ہو تو واقعی یہ تو مذہب کے ساتھ بڑا ظلم ہے اور مذہب کی غلط تو جیہہ۔ اس کے پسِ پشت بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ مادیت کے اس دور میں ہر انسان مغزکے بجائے قشر پر اکتفا کرنے کو کافی سمجھتا ہے، یہ صورت حال صرف اسلام ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے زیادہ تر لوگ اسی کیفیت کا شکار ہیں۔ یہ لوگ مذہب پر عمل کرنے کی آڑ میں اپنی نفسانیت کو تسکین پہنچاتے ہیں اور اسی نفسانیت کی مذہب سمجھ کریہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ بہت بڑے مذہبی ہیں۔
Sadiq Raza
جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مو قع پر بعض نفس پرست مسلمانوں نے اسے اپنی تسکین کابہت بڑا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ جو بنیادی طور پر غلط ہے اس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے جسم کے کس عضو پر بیماری ہے۔اگر بازو میں کہیں پہ پھوڑا نکل آیا ہے تو عقل مند ڈاکٹر صرف اس پھوڑے کا آپریشن کرتا ہے پورے بازو کو کاٹ کر نہیں پھینکتا۔ عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماحول بھی بدقسمتی سے بعض علاقوں میں اسی بیماری کا شکار ہوگیا ہے تواب ہماری ذمے داری ہے کہ صرف اس بیماری کاعلاج کریں پورے ماحول اور پوری تاریخ کو مسترد کرنا انصاف نہیں ہوگا۔