بھارت لوک سبھا کا چھٹا مرحلہ نریندر مودی کی نئی مضحکہ خیز منطق و بنارس میں نشست میں کامیابی کے لئے مندر یاترا ئوں کے ساتھ ختم ہوا ۔ مودی پر انتخابای بخار اس حد تک چڑھا ہوا تھا کہ اپنے بیانات کے پیر ہی انہیں معلوم نہیں تھے کہ وہ کیا کرنا اور کہنا چاہ رہے ہیں ۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے پاکستان میں جارحیت کے لئے بیانیہ دیا کہ بارش و موسم کی خرابی کی وجہ سے ریڈار پر پاکستان کو جہاز نظر نہیں آئیں گے ۔ اس لئے حملے کے لئے ائیرفورس کو حکم دیا تھا ۔ مودی سرکار کی اس مضحکہ خیز و کم علمی کے بیان کے بعد بھارتی اپوزیشن جماعتوں و سول میڈیا میں طنز و تیر کا طوفان آگیا ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ پانچ برس میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے دئے ۔ بھارت کے طویل انتخابات کے مراحل میں اب 19مئی کو مکمل ہوگیا ہے۔ مودی سرکار کے مضحکہ خیز بیانات و جھوٹے سرجیکل سٹرائک کے بیانات کو لے کر بھارتی عوام کے سامنے بھارتی جنتا پارٹی اور ان کے اتحادیوں کا پردہ تو پہلے ی چاک ہوچکا ہے ۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ میں مودی سرکار کی کامیابی سے متعلق قیاس آرائی میں کہا جارہا ہے اگر مودی سرکاردوبارہ کامیاب ہوتی ہے تو یہ بھارتی عوام کے سانحہ ہوگا ۔ مودی سرکارنے اپنے انتخابی وعدے تو پورے نہیں کئے لیکن بھارت کو انتہا پسند مملکت بنانے میں ہوچکے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر مذہبی اقلیتو ں کے خلاف جو نفرت کا بیج بویا گیا تھا وہ تنا ور درخت بنتا جارہا ہے۔ اس کا اندازہ آسام کے ایک ضلع ہیلا کانڈی میں ہونے والے واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں مسلمانوں کے باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے سڑک پر نماز کے اہتمام کے موقع پر فسادات بھڑک اٹھے ۔ ہیلا کانڈی نگر میں فوج کو بلا کر کرفیو لگا دیا گیا ۔ جمعہ کے دن ہونے والے فسادات میں ایک شخص جاں بحق اور 14سے زائد زخمی ہوئے۔
12مئی کو لوک سبھا کے انتخابات کے چھٹے مرحلے میں دالحکومت دہلی سمیت 7ریاستوں کی59نشستوں کے لئے پولنگ ہوئی ۔ ۔اترپردیش میں 14، ہریانہ میں 10، بہار میں 9، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش میں آٹھ آٹھ، دہلی میں تمام سات نشستوں اور جھارکھنڈ میں چار نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔اس مرحلے میں کل 968 اُمیدواروں کے لئے دس کروڑ سے زائد بھارتی عوام نے ووٹ ڈالنا تھا۔ ان علاقوں میں ایک لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے۔اعظم گڑھ سے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلش یادیو، بھوپال سے کانگریس رہنما وجے سنگھ اور بھارتیہ جنتہ پارٹی کی سادھوی سنگھ ٹھاکر چھٹے مرحلے میں الیکشن کے لئے میدان میں اترے۔نئی دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت، کانگریس رہنما اجے ماکن، بی جے پی دہلی کے صدر منوج تیواری، باکسر وجیندر سنگھ، کرکٹر گوتم گمبھیر، جیوترادتیہ سندھیا، مینکا گاندھی اور مرکزی وزیر ہرش وردھن بھی انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔
19مئی کو انڈیا کے پارلیمانی انتخابات کے آخری مرحلے میں آج ملک کی آٹھ ریاستوں کے 59 حلقوں میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ آج کی ووٹنگ کے ساتھ دو مہینے سے جاری 543 رکنی پارلیمنٹ کے انتخابات مکمل ہوجائیں گے اور ووٹوں کی گنتی 23 مئی یعنی جمعرات کی صبح شروع ہوگی۔آخری مرحلے میں اتر پردیش کی 13، پنجاب کی 13، مدھیہ پردیش کی آٹھ، بہار کی آٹھ، بنگال کی نو، جھارکھنڈ کی تین، ہماچل پردیش کی چار اور چنڈی گڑھ کی ایک نشست کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں آخری مرحلے میں وزیر اعظم نریندر مودی بنارس کی نشست امیدوار ہیں۔ اس سیٹ پر وہ بھی کامیاب ہوچکے ہیں۔
دارالحکومت دہلی میں انتخابات خصوصی توجہ کا مرکز رہے کیونکہ عام آدمی پارٹی ، کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابل ہوا ۔ دہلی کی7 نشستوں کے لیے 164 اُمیدوار میدان میںتھے جن میں 16 خواتین اور 43 آزاد اُمیدوار شامل ہیں۔مبصرین و عالمی ابلاغ کے مطابق مغربی بنگال میں بی جے پی اور حکمراں ترنمول کانگریس کے درمیان سخت مقابلہ رہا۔ واضح رہے کہ دونوں پارٹیوں کے مابین تصادم بھی ہو چکا ہے۔ انتخابات سے قبل دونوں جماعتوں کے دو کارکن بھی ہلاک ہوئے تھے۔اس علاقے میں بی جے پی کی اُمیدوار بھارتی گھوش پر پتھراؤ بھی ہوا تھا جبکہ پولنگ اسٹیشن پر حملے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔چھٹے مرحلے کے انتخابات کے لئے نئی دہلی میں سونیا گاندھی، راہول گاندھی، سشما سوراج اور اروند کیجری وال سمیت دیگر اہم شخصیات نے ووٹ کاسٹ کئے۔راہول گاندھی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری مہم میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نفرت کا اور ہم نے محبت کا پیغام دیا، اُمید ہے محبت کامیاب ہو گی۔ چھٹے مرحلے کو بھی نئی دہلی میں متعدد پولنگ اسٹیشنز پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں خرابی کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔
بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کا آخری مرحلہ 19مئی کو ہوگا جس کے بعدبھارت انتخابی عمل مکمل ہوجائے گا ۔ آخری مرحلے میں بہار کی 8، جھارکھنڈ کی 3، مدھیہ پردیش کی 8، پنجاب کی 13، مغربی بنگال کی 9، چنڈی گڑھ کی ایک، اترپردیش کی 13 اورہماچل پردیش کی 4 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔واضح رہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات 7اپریل سے 12مئی کے درمیان 9مراحل میں مکمل ہوئے تھے، ووٹوں کی گنتی 16مئی کو اور وزیر اعظم نریندر مودی نے26مئی کو حلف اٹھایا تھا۔16ویں لوک سبھا(2014ـ2019) کا پہلا اجلاس 4جون کو شروع ہوا تھا لہذا آئینی رکاوٹ ہونے کے باعث پہلا اجلاس 3جون سے شروع ہوجائیگا۔لوک سبھا کی 543 نشستوں کیلئے انتخابات میں 900 ملین ووٹرز اپنی حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ انتخابات کا پہلا مرحلہ 11 اپریل، دوسرا 18 اپریل، تیسرا 23 اپریل، چوتھا 29 اپریل، پانچواں 6 مئی، چھٹا 12 مئی کو مکمل ہوا جبکہ ساتواں مرحلہ 19 مئی کو مکمل ہوگا۔ انتخابات میں 900 ملین ووٹرز میں 15 ملین ووٹرز کی عمریں 18 سے 19 برس ہے۔ 45کروڑ سے زاید خواتین ووٹرز ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات میں الیکشن کے برعکس اس الیکشن میں وزیراعظم نریندرمودی کی جماعت بی جے پی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، انتخابی ایجنڈے میں عملدرآمد کرنے میں ناکام بی جے پی کو حال ہی میں اپنے مضبوط علاقوں راجھستان اور چھتیس گڑھ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔بھارت کے عام انتخابات میں 10 ارب ڈالر کی لاگت کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ انتخابات مکمل ہونے کے بعد حتمی لاگت کی تفصیلات میں یقینی طور پر لاگت میں بے پناہ اضافہ سامنے آئے گا ۔خیال رہے کہ انڈیا کے ووٹروں کی تعداد یورپ اور آسٹریلیا کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ انڈیا میں ووٹروں کی تعداد 90 کروڑ سے زیادہ ہے جو تقریباً دس لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے انتخابات ہیں۔ انڈیا کی پارلیمان کی 543 نشستیں ہیں اور کامیابی کے لیے 272 نشستیں درکار ہوں گی۔سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے اندازے کے مطابق سال 2014 میں تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے کل ملا کر تقریباً 5 ارب ڈالر خرچ کیے تھے اور اس بار امریکا میں تھنک ٹینک ‘کارنیگی انڈاؤمنٹ’ میں جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر کا اندازہ ہے کہ یہ انتخابی خرچہ دوگنا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں سن دو ہزار سولہ کے صدارتی اور کانگریس کے انتخابات کا خرچہ ساڑھے چھ ارب ڈالر تھا۔انڈیا میں نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ برس ‘انتخابی بانڈ’ جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے ذریعے کاروباری ادارے اور لوگ ذاتی طور پر بغیر اپنی شناخت ظاہر کیے سیاسی جماعتوں کو چندہ دے سکیں گے۔ ان بانڈز میں اب تک 150 ملین ڈالر دیئے جا چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق یہ زیادہ تر پیسہ تر بی جے پی کو ملا ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن نے جب ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا تو ماہ رمضان میں انتخابی مراحل آنے پر سیاسی جماعتوں نے مسلم ووٹ کے حصول کے لئے شیڈول بڑھانے کے مطالبے کئے تھے ۔ لیکن بھارت الیکشن کمیشن نے مطالبے مسترد کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ عام انتخابات طے شدہ شیڈول کے مطابق ہی ہونگے کیونکہ 2جون تک تمام اقدامات و نئی حکومت کی تشکیل کو مکمل کرنا ضروری ہے ۔کمیشن کے مطابق اس بات کا خیال رکھا گیا کہ اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا تھا کہ ساتواں مراحل میں جمعہ یا تہوار کے دن پولنگ کی تاریخیں نہ پڑیں ۔بھارتی انتخابات میں فرقہ وارنہ رنگ کی آمیزش کی وجہ سے سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ بلکہ بھارت میں اب یہ ایک عام رجحان بنتا جارہا ہے کہ ہر معاملے کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے ۔ اس نظریئے کو مودی سرکار نے کافی فروغ دیا ہے ۔ جس کے منفی اثرات سے بھارتی عوام براہ راست متاثر ہو رہی ہیں۔مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے متعدد سیاسی جماعتوں اور بالخصوص مغربی بنگال میں حکمران ترنمول کانگریس اور دہلی میں حکمران عام آدمی پارٹی نے رمضان کے مہینے میں الیکشن کرانے پر سخت اعتراض کیاتھا۔ عام آدمی پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان سنجے سنگھکا کہنا تھا کہ،”حکومت نے اپنے فائدے کے لیے الیکشن کمیشن کے وقار اور عظمت کو داؤ پر لگا دیا۔
تین تین مرحلوں کی پولنگ کی تاریخیں رمضان میں رکھ دیں۔ ایک طرف تو آپ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آکر ووٹ ڈالنے اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن اگر رمضان میں الیکشن ہوتا ہے تو مجھے بتائیے کہ مئی کی سخت دھوپ میں کون مسلمان دن بھر قطار میں کھڑا رہے گا۔”مغربی بنگال کے وزیر فرہاد حکیم نے مودی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا،”بی جے پی نہیں چاہتی کہ مسلمان اپنا ووٹ ڈالنے جائیں۔ خاص طور پر بہار، اترپردیش اور مغربی بنگال میں جہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے۔”سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اور اترپردیش کے سابق صوبائی وزیر محمد اعظم خان نے سوال اٹھایا،”الیکشن کمیشن نے ماضی میں تہواروں کو مدنظر رکھا تھا لیکن اس مرتبہ ایسا کیوں نہیں؟ اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا خیال رکھا جاتا ہے تو ہمارے تہوار کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ رمضان ہمارا سب سے بڑا تہوار ہے۔”بہر حال حکومت کے علاوہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس اور کئی دیگر سیاسی جماعتوں اور مسلم علما اور دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس بحث کو غیر ضروری اور اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دے رہا ہے۔
کانگریس کے ترجمان اور سابق ممبر پارلیمان محمد افضل نے کہا،”پہلے بھی رمضان میں انتخابات ہوئے ہیں لیکن اس پر کسی نے اس طرح کا اعتراض نہیں کیا جس طرح آج کیا جا رہا ہے، جو لوگ الیکشن کمیشن پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ دراصل فرقہ پرستوں کی کہیں نہ کہیں مدد کر رہے ہیں کیوں کہ فرقہ پرست طاقتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن کو مسلمانوں کے تنازعے سے جوڑ دیا جائے اور ووٹروں کی صف بندی کر دی جائے۔ ہمیں اس چال کو سمجھنا چاہئے۔ ”کانگریس ترجمان کا مزید کہنا تھا،”نہ تو رمضان ٹل سکتا ہے اور نہ ہی الیکشن ٹل سکتا ہے۔ دونوں بہت ضروری ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ماہ رمضان میں کوئی بھی جائز کام کرنے پر پابندی نہیں ہے بلکہ اس کی اجازت ہے۔ الیکشن بھی ایک جائز اور ضروری کام ہے۔”مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور ممبر پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس بحث کو غیر ضروری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا،”میرا تو اندازہ ہے کہ رمضان میں ووٹ کی شرح بڑھ جائے گی کیوں کہ مسلمان کھانے پینے کی جھنجھٹ سے بچے رہیں گے۔”فلمی نغمہ نگار جاوید اختر کے خیال میں اس طرح کی بحث ہی قابل نفرت ہے اور الیکشن کمیشن کو اس طرح کی کسی تجویز پر سرے سے غور کرنا ہی نہیں چاہیے۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس تنازع پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا،”جو لوگ روزہ رکھتے ہیں انہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن سیاسی لیڈروں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ پہلے بھی تہواروں کے دوران الیکشن ہوتے رہے ہیں اور گزشتہ برس ہی کیرانہ (اترپردیش) میں پارلیمان کا ضمنی انتخاب رمضان کے مہینے میں ہوا تھا، جس میں ہماری پارٹی بی جے پی کی شکست ہوگئی تھی۔
”بی جے پی کے ترجمان اور سابق مرکزی وزیر سید شاہنواز حسین کی رائے میں یہ تنازع وہ لوگ پیدا کر رہے ہیں جو بھارت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بی جے پی بھارتی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے کہ بھارت میں فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیادی وجہ خود ان کی حکومت و مودی سرکاری کی انتہا پسند پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے عدم تحفظ میں شدید اضافہ ہوا۔ ہند انتہا پسند سوچ کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کو خطرات کا سامنا ہے ۔ بھارت کی کوئی بھی مذہبی اقلیت خود کو مملکت میں محفوظ نہیں سمجھتی ۔ بھارت میں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی منشور و عوامی مسائل کے ایجنڈے پر الیکشن ہونے کے بجائے فرقہ ، و ذات پات اور نسل کی بنیادوں پر انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے خود بھارت کے باشعور عوام بھی بے زار ہیں ، لیکن عوام کی بڑی تعداد کو مذہبی انتہا پسندی میں اس قدر جکڑ دیا گیا ہے کہ ان کی سوچ و شعور کی حد اپنے مسائل کے حل کے لئے جمود کا شکار ہوچکی ہے۔ ہندو انتہا پسندی کی جنونیت نے عام بھارتی عوام کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ مذہبی جنونیت کی اس لہر میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ انہیں بی جے پی سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی۔5دن بعد بھارت کی عوام کا فیصلہ سامنے آجائے گا کہ انہوں نے انتہا پسندی کو مزید جاری رکھنے کے لئے انتہا پسندوں کو کامیاب کرایا یا پھر اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے شعور و سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا۔
19مئی کو دنیا کے سب سے بڑے و مہنگے انتخابی عمل تکمیل پذ یر ہوجائے گا ۔بھارتی جنتا پارٹی و ان کی اتحادی جماعتوں اور کانگریس سمیت ان کے اتحادیوں کے درمیان انتخابی معرکے کے اختتام پر قیاس آرائیاں بھی اپنے عروج پر ہیں ۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نریندر مودی کی جماعت تمام تر مشکلات کے باوجود ایک بار پھر کامیاب ہوسکتی ہے لیکن سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ انہیں اقتدار کے لئے مزید اتحادی جماعتوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ کیونکہ لوک سبھا انتخابات سے قبل ریاستی انتخابات میں خلاف توقع بھارتی جنتا پارٹی کو شکست کا سامنا ہوا تھا ۔مودی سرکار کو اپنے مضبوط گڑھ میں بھی شکست کا سامنا ہوا تھا ۔ ریاستی انتخابات میں بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے 15 برس تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد چھتیس گڑھ میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست دیتے ہوئے راجستھان میں بھی اکثریت حاصل کی تھی۔جبکہ شمال کی ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس نے بی جے پی کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔جنوبی ریاست تلنگانہ میں توقعات کے مطابق علاقائی جماعت ٹی آر ایس کامیاب رہی۔ بی جے پی ریاست میں کوئی خاص کامیابی نہ حاصل کر سکی تھی۔ جبکہ شمال مشرقی ریاست میزورم میں بھی علاقائی جماعت میزو نیشل فرنٹ ن اس طرح حکمران جماعت بی جے پی کو پانچ ریاستوں میں شکست کا سامنا ہوا۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی بیشتر سیٹیں اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسی شمالی ریاستوں سے جیتی تھیں۔ ان نتائج کے ساتھ ہی اتر پردیش اور بہار میں کانگریس اور علاقائی جماعتوں کے درمیان اتحاد کے راستے ہموار ہو ئے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں برسرِ اقتدار بی جے پی کو پہلی بار زبردست سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سیاسی مبصرین مودی کو انتخابی طور پر ‘ناقابل شکست’ اور ‘کرشماتی رہنما’ قرار دے رہے تھے۔ ہر کوئی مودی کی دوسری مدت کی بات کر رہا تھا لیکن ان نتائج سے مودی اور ان کی جماعت کو زبردست سیاسی نقضان پہنچا تھا لیکن بی جے پی نے اسے سنجیدہ نہیں لیا ان کا ماننا رہا تھا کہ ریاستی اور لوک سبھا انتخابات میں کافی فرق ہوتا ہے اس لئے بی جے پی کو لوک سبھا کے انتخابات میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔تاہم مبصرین کا کہنا تھا کہ ریاستی اسمبلیوں کے یہ نتائج ملک کی موجودہ سیاست کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان نتائج کے بعد بی جے پی کی قیادت کو نئی انتخابی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔’ یہی وجہ تھی کہ بھارت کے پورے انتخابی ماحول کو تبدیل کرنے کے لئے پلوامہ ڈرامہ، بالاکوٹ سبکی اور لائن آف کنٹرول پر مہم جوئ، خلائی میزائل کا ناکام تجربہ کیا گیا۔ 23مئی کو بھارتی عوام کی قسمت کا فیصلہ سامنے آجائے گا ۔ جس کے بعد 2جون تک حکومت کی تشکیل کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔