تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا القلم(قرآن پاک) قلم کی حرمت ۔اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ قلم کی اہمیت احساسیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس میں ایک سورة کا نام ہے۔اس سے صحافت اور قلم کے اعلیٰ مقام کا بخوبی پتا لگائا جا سکتا ہے۔ اسی لئے حکم ہے جو بھی خبر آئے پہلے اسکی تحقیق کر لیا کرو تاکہ لا علمی میں کسی کو کوئی گزند نہ پہنچ سکے ۔ سینئر کالم نویس محترم عبدالروف صاحب کا ایک کالم بنام کیسا علاج نظر سے گزرا۔جناب لکھتے ہے کہ میرا مقصدیہ نہیں کہ بلا وجہ کسی طریقہ علاج کے خلاف بات کروں؟ لکھتے ہے دنیا میں ہونے والی رسرچ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدام جس کے باعث ہومیوپتھی پر دن بدن تنقید ہو رہی ہے اور اس پر پابندیاں لگ رہی ہیں۔مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں اس کے بارے میں کچھ کہوں؟لکھتے ہے ناروال شہر میں ایک داکٹر صاحب نے بورڈ لگا رکھا ہے جس پر تحیریر ہے بواسیر اور امراض چشم کا علاج ہوتا ہے۔
موصوف لکھتے ہے کہ محسوس ہوتا ہے ۔دنیا میں مرض بعد میں دریافت ہوتا ہے اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اس کا علاج پہلے ڈھونڈلیتے ہیں۔گلی گلی میں کم علم ڈاکٹر نما لوگ نا معلوم کس معیار کی درس گاہ سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔افسوس انکی ادویات کو جانچنے کے لئے کوئی ڈرگ ٹیسٹنگ لیب ہے نہ ہی انکے ادارے جو ڈگریاں بانٹ رہے انکو پرکھنے کا نظام ۔سینئر کالم نویس محترم عبدالرؤف صاحب آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ آج دنیا ٹیکنالوجی کی بدولت ایک گاؤں کی مانند ہے۔ دنیا کے کسی ملک ، خطہ میں ہومیوپیتھی پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی کیونکہ دنیا جانتی ہے ہومیوپیتھی ایک قدرتی بے ضرر علاج ہے۔جو حضور نے لکھا ہے ہومیوپیتھی پر پابندی لگانے کی خبروں کی تو عرض ہے یہ افواء کے علاوہ کچھ نہیں۔
اگر دنیا کے کسی ملک میں ہومیوپیتھی پر پابندی لگنا تو دور پابندی لگانے کی تگ و دو بھی ہوتی تو بین الاقوامی میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہوتیں۔جہاں تک ناروال شہر کے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے بورڈ کا حوالہ دیا گیا ہے تو ناروال ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور دنیا میں ایسے اشتہاری تشہیر کے بورڈ وغیرہ موجود ہیں۔جناب کی خدمت میں عرض ہے۔ بواسیر ، امراض چشم یا دیگر گردہ ،پتہ، مثانہ کے امراض وغیرہ کے جو بورڈ ایویزاںہیں یہ تو وہ امراض ہے جو ازل سے ہی انسانیت کو دبوچے ہوئے ہیں۔ ان امراض کی دریافت صدیوں پر محیط ہے۔ ویسے رہا مسلئہ جو آپ نے لکھا ہے امراض بعد میں دریافت ہوتے ہیں ہومیوپیتھ علاج پہلے ڈھونڈ لیتے ہیں۔
ALLAH
کاش آپ حکم خدا وندی کو یا رکھتے۔اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری ہی نازل نہیںن کی جسکی شفاء نہ اتاری ہو۔اگر کسی مرض کا علاج دریافت نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس مرض کا علاج نہیں بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ علاج تو موجود ہے مگر ہماری پہنچ سے اوجل ہے۔ رہی بات ہومیوپیتھس کی تو ہومیوپیتھی میں وہ تمام علامات جو آزمائش کے دوران تندرست انسانوں سے حاصل کی جاتی ہے وہی علامات بیمار انسانوں سے ڈھونڈ کر ملائی جاتیں ہیں۔ جتنی زیادہ علامات کی مشہابت ہوگئی اتنی ہی جلدی سے مریض تندرست ہوگا۔بواسیر تو درکنار جناب محترم عبدالروف صاحب خواہ ایچ آئی وی ہو یا ہیپاٹائٹس۔ہومیوپیتھی کو علامات چاہیئے
ڈپلومہ یا ڈگری بانٹے نہیں جاتے ۔بانٹتے صرف زکواة، صدقہ، خیرات اور نیاز ہیں۔پاکستان میں حکومت پاکستان کا ایک ادارہ بنام نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی(حکومت پاکستان) جو اکیس افراد پر مشتمل ہے جس میں چار وفاقی اور چار صوبائی حکومتوں کے نامزد ہوتے ہیں، اور گیا رہ ممبران ڑجسٹرڈ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ دو ممبران کالز سیٹوں پر نامزد ہوتے ہیں۔ یہ سب ملکر نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی کا وجود عمل میں آتا ہے۔اور کونسل سلیبس، امتحانات، ڈپلومے رجصٹریشن،حتیٰ کہ ہومیو کالجز کو بھی رجسٹرڈ کرتی ہے ۔نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی کے زیر اہتمام چلنے والے ہومیوپیتھک میڈیکل کالز چار سال پڑھاتے ہیں۔ سلیبس میں اناٹومی ، فزیالوجی ، پیتھالوجی ، مڈوائفری ، گائنا کالوجی ، سائیکالوجی ۔سرجری ۔ مٹیریا میڈیکا، فلاسفی۔ فارمیسی۔ اور قانون طب سمیت تمام مضامین کے امتحانات پاس کرنا لازمی ہے۔ کاش آپ لکھنے سے پہلے کسی بھی رجسٹرڈ ہومیو کالج کو وزٹ کر تے ؟ جناب کے کالم سے ایسا تاثر ابھر رہا تھا جیسے ہومیوپتھی کے شعبہ میں اسلامی جموریہ پاکستان کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون ہے
جناب نے احمد ندیم قاسمی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک کالم میں احمد ندیم قاسمی نیلکھا ہے کہ ہومیوپیتھی کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں جبکہ عبدالرؤف صاحب نے لکھا ہے کہ ہومیوپیتھی کا کوئی ایفیکٹ نہیں۔تو کیا جناب کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک دو سو سال سے زیادہ عرصہ سے مفروضوں کے بل بوتوں پر ہومیوپتھک طریقہ علاج سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔اگر نہیں تو پھر ماننا پڑے گا بھائی عبدالرؤف شعوری یا لاشعوری طور پر آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ ہومیوپیتھی پر دنیا پابندی نہیں بلکہ ہومیوپیتی کا جادو سر چڑھ کر دنیا کو ہومیوپیتھی کا گرویدہ بنا رہا ہے۔