قابل تقلید لوگ

Serve Humanity

Serve Humanity

تحریر : روشن خٹک

دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں وہ انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کو تحسین کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔لیکن دینِ فطرت یعنی اسلام نے خدمتِ انسانیت کو کو عظیم عبادت قرار دیا ہے۔دراصل اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسے اوصاف یا صلاحیتیں ودیعت نہیں کی ہیں بلکہ ان کے درمیان فرق و تفاوت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کائناتِ رنگ و بو کا حسن و جمال ہے۔یوں تو اللہ تعالیٰ ہر کسی کو مالدار، صحت مند اور خوبصورت بنا سکتا تھا مگر ایسا کرنا شانِ خلاقی کے خلاف ہوتا اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے اس امتحان کا جو اصل مقصد ہے ،وہ بھی فوت ہو جاتا ۔ اللہ جل و جلالہ نے اس دنیا میں جس کسی کو بہت کچھ دیا ہے اس کا بھی امتحان ہے اور جس کو محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے ۔حکمِ اِلہی ہے کہ ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدد کیا کرو۔تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی محبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور اللہ کی رضا اور خوشنودی بھی حاصل ہو ۔انسانیت کے خدمت کے بہت سارے طریقے ہیں،یتیموں ، بے سہارا اور بیوائوں کی مدد یہ سب خدمتِ خلق کے کام ہیں۔

پاکستان میں بھی بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو اسی قسم کے خدمتِ خلق میں مصروف ہیں مگر بہت کم لوگوں کو ان کے کام کا علم ہو تا ہے۔ گزشتہ روز مسلم ہینڈز سکول آف ایکسیلنس پشاور نے راقم الحروف کو بحیثتِ چیف گیسٹ سکول کے طلباء میں عیدی تقسیم کرنے کے ایک پروگرام میں مد عو کیا۔ ان کے ڈائریکٹر رحیم اللہ صاحب ، ایجو کیشن آفیسر سلیم آفاقی صاحب اور سوشل پروگراموں کے روحِ رواں اور کالم نگار وقار احمد اعوان بھی اس پروگرام کا حصہ تھے۔

سکول کی عمارت، کلاس رومز کی ترتیب و صفائی ، طلباء کا ڈسپلن دیکھ کر مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی ،اس سکول میں پڑھنے والے بچے یتیم تھے یا بے سہارا، سب کے چال چلن ،خود اعتمادی اور فیس ریڈنگ سے کہیں بھی یہ آثار ظاہر نہیں ہو رہے تھے کہ وہ اپنے آپ کو بے سہارا سمجھ رہے ہوں ، دراصل یہ سب کمال اس سکول کے اساتذہ اور منتظمین کا تھا کہ ان کی تربیت وہ اس انداز میں کر رہے تھے کہ اس مادرِ علمی میں زیرِ تعلیم بچے کسی صورت میں اپنے آپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھ رہے تھے۔

مسلم ہینڈز اسکولز پورے پاکستان میں موجود ہیں ،اس وقت تقریبا پینتالیس ہزار بچے مسلم ہینڈز اسکو لوں میں علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں ۔ ابتداء 1995میں ہو ئی اور وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے اس کے پھیلائو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طلباء میں ادارے کی طرف سے نقد عیدی تقسیم کرنے کے بعد میں گھر واپس آرہا تھا کہ الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے ایک معروف مقامی ہو ٹل میں افطاری کی دعوت ملی ، جس کا مقصد اہلِ قلم حضرات کو الخدمت کے تحت پاکستان بھر میں جاری منصوبہ جات اور سرگرمیوں کے متعلق آگاہ کرنا تھا۔

یہ فاونڈیشن اگرچہ آفات سے بچاو، تعلیم ،صحت، ،صاف پانی اور دیگر سماجی خدمات میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رہی ہے مگر راقم الحروف کو ان کا ” کفالتِ یتامیٰ ” پروگررام سب سے زیادہ پسند ہے۔ملک بھر میں انہوں نے مختلف شہروں میں یتیم خانے قائم کر رکھے ہیں ، جو ان کی تعلیم اور کفالت بہترین طریقے سے کر رہے ہیں ۔ پشاور میں جی ٹی روڈ پر قائم ان کا یتیم خانہ ” آغوش ” دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ،جہاں یتیموں کے لئے قائم ہا سٹل، کلاس رومز، کھانے پینے کا انتظام ،لائبریری اور کمپیوٹر روم دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ وطنِ عزیز میں ایسے لوگ بھی ہیں جو انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں جو ضرورت مند انسانوں کی خدمت کرکے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کر رہے ہیں۔میرے نزدیک کسی مسلمان بچے یا بوڑھے کی ضرورت پوری کرنے کی سعی ماہِ رمضان میں اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ بہتر ہے ۔بے شک یتیم کی کفالت کرنے والے کوقیامت کے روز سرکارِ دو عالم حضرت محمد ۖ کی رفاقت نصیب ہو گی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کے کام تو حکومتِ وقت کو کرنے چا ہیئں مگر بد قسمتی سے ہمارے حکومتوں کو ایسے کام کرنے کی فکر ہے نہ کو ئی دھیان ۔لہذا ہمیں چا ہیئے کہ انفرادی طور پر اپنے پڑوسیوں ، ضرورت مندوں اور رشتہ داروں کی مدد کریں اور حتی المقدور ان اداروں کی بھی مدد کریں جو خدمتِ خلق کے کاموں میں شب و روز مصروف ہیں کیونکہ یہی لوگ دراصل قابلِ تقلید ہیں ۔جن کے نقشِ قدم پر چل کر اخروی زندگی کے لئے ہم اپنا اثاثہ بنا سکتے ہیں جو ہمارے لئے بخشش اور نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔۔

Roshan Khattak

Roshan Khattak

تحریر : روشن خٹک