لندن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران نے ہزاروں افراد کو مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں ہلاک کر دیا ہے، دنیا کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔
وہ لندن میں معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایران نے شاید ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا ہے۔اس وقت جب ہم یہ گفتگو کررہے ہیں تو ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں۔اسی لیے انھوں (ایرانیوں) نے انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا ہے تاکہ لوگ یہ نہ دیکھ سکیں کہ ایران میں کیا ہورہا ہے۔‘‘
صدر ٹرمپ نے کہا:’’ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں اور ہلاکتوں کی تو تھوڑی تعداد بھی بری ہے۔یہ بھاری تعداد ہے اور یہ واقعتاً بہت ہی بری بات ہے۔یہ ایک بہت خوف ناک چیز ہے اور دنیا کو اس کو دیکھنا چاہیے۔‘‘
انھوں نے اپنے فرانسیسی ہم منصب عمانوایل ماکروں کے نیٹو کے بارے میں ایک حالیہ تنقیدی بیان کو توہین آمیز قراردیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ نیٹو کی ’’دماغی موت‘‘ واقع ہوچکی ہے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ دیکھتے ہیں کہ فرانس کیسے نیٹو سے اپنا ناتا توڑتا ہے۔ اگرایسا ہوتا ہے تو یہ ایک حیرت انگیزامر ہوگا کیونکہ فرانس کو کسی اور ملک سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔‘‘
انھوں نے کہا:’’ میں فرانسیسی صدر سے ملاقات کا منتظر ہوں اور انھیں یہ باور کراؤں گا کہ انھیں کسی بھی اور شخص سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے مگر میں انھیں تعلق توڑتا ہوا دیکھ رہاہوں اس لیے مجھے کوئی زیادہ حیرت نہیں ہوئی ہے۔‘‘
صدر ٹرمپ اور ان کے نیٹو اتحادی لندن میں اس فوجی اتحاد کے سترویں یوم تاسیس کے موقع پر سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔نیٹو ممالک کے لیڈروں کے درمیان تنظیم کے مستقبل کے بارے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور حالیہ دنوں میں فرانسیسی صدر اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کھل کر اس حوالے سے بیانات دیے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے نیٹو کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر امریکی حزب اختلاف ڈیمو کریٹس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اپنے سیاسی حریفوں کی جانب سے مواخذے کی کارروائی کو ’’غیر محبِ وطن‘‘ اور اپنے ملک کے لیےایک بری چیز قرار دیا ہے۔
انھوں نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی ملک میں عدم موجودگی کے باوجود ڈیمو کریٹس کی جانب سے مواخذے کی کارروائی کو جاری رکھنے پرکڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور انھیں ’’غیر محبِ وطن‘‘ قراردیا ہے۔