بھارت میں سقوط ڈھاکہ کا جشن اور مودی سرکار

Narinder Modi

Narinder Modi

تحریر: علی عمران شاہین
”نئی دہلی میں 800 سال بعد ہندو حکومت بنی ہے، یہاں آخری حکومت پر تھوی راج چوہان کی تھی۔ اب ملک میں ہندو اقدار بحال کی جائیں گی” یہ الفاظ ہیں بھارت میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لئے سرگرم عمل تنظیم وشوا ہندو پریشد کے صدر اشوک سنگھل کے، جو نریندر مودی کے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔ وشوا ہندو پریشد (یعنی ورلڈ ہندو کونسل)کے عالمی سیکرٹری جنرل کا نام پروین توگڑیا ہے۔ 29 اگست 1964ء کو بننے والی اس تنظیم نے اپنا کام ہندو مذہب کا احیاء بتا رکھا ہے جس کے تحت ملک بھر میں مندروں کی تعمیر نو ہو تی ہے ۔گائے کا ذبیحہ روکنے کے لئے ہر سطح پر اقدامات ہوتے ہیں۔بابری مسجد کی شہادت میں اس تنظیم نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور اب بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کے لئے بھی یہی تنظیم سب سے زیادہ سرگرم ہے۔

پروین توگڑیا نے 21 دسمبر 2014ء کو بھوپال شہر میں ہندوئوں کے ایک بڑے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب ہندو ساری دنیا میں پائے جاتے تھے لیکن اب ان کی آبادی بہت کم ہو گئی ہے جسے اب کم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وشوا ہندو پریشد کی ”گھر واپسی” مہم کے شور شرابے کے دوران میں بھارت نے 16دسمبر(یوم سقوط ڈھاکہ)کو ملک کے اطراف و اکناف میں ”وجے دیواس” یعنی بڑی فتح کے نام سے جشن منایا۔ ملک بھر میں تقریبات ہوئیں۔نریندر مودی نے فوج کے نام اپنے پیغام میں خصوصی مبارکباد پیش کی۔ اسلام دشمن بھارتی ہندو رہنمائوں کے بیانات اور نریندر مودی کی مبارکباد نے پرتھوی راج چوہان کا دور یاد کرایا لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ 1192ء میں افغانستان کے صوبہ غور کے ایک غیرت مند مجاہد سلطان محمد شہاب الدین غوری نے پرتھوی کو عبرتناک شکست سے دوچار کر کے ہلاک کرڈالا تھا اورپھر سارے ہند پر مسلمانوں کی بلاشرکت غیرے حکومت قائم ہو گئی تھی

یہ 1191ء کی بات ہے، جب سلطان شہاب الدین غوری ہندوستان میں فتوحات کے پرچم لہراتا مشرقی پنجاب کے علاقہ بٹھنڈہ تک آن پہنچا تھا۔ یہ مقام فتح کرنے کے بعدسلطان نے یہاں اپنی فوج کے 12سو سپاہی چھوڑ کر واپسی کی راہ لی تھی۔ بٹھنڈہ پرتھوی راج چوہان کی قلمرو کے دروازے پر واقع تھا۔ سلطان جب اپنی فوج کے ہمراہ واپس غور پہنچا تو پرتھوی نے ایک بڑی فوج کے ساتھ اس معمولی حفاظتی فوج پر حملہ کر کے بٹھنڈہ قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ سلطان قلیل فوج کے ساتھ لوٹ کر آیا اور ترائن کے میدان میں خونریز جنگ ہوئی۔

اس جنگ میں سلطان زخمی ہو کر گرنے والا تھا کہ اس کا ایک جاں نثار سپاہی اسے اپنے گھوڑے پر بٹھا کر میدان سے نکال لے گیا اور سلطان کے بغیر فوج شکست کھا گئی۔ پرتھوی راج چوہان نے فتح کے نقارے بجائے اور خوب جشن منایا۔ سلطان شہاب الدین غوری نے غزنی پہنچ کر میدان چھوڑنے والے فوجی افسروں کو سزا دی اور پرتھوی راج چوہان کو سبق سکھانے کی قسم کھا کر جنگ کی تیاری شروع کر دی اور اگلے سال پھرسلطان نے ایک لاکھ 20ہزار فوج تیارکر کے ہندوستان کا رخ کر لیا۔

لاہور پہنچ کر سلطان نے پرتھوی راج چوہان کو پیغام بھیجا کہ وہ ہتھیار ڈال کر اسلام قبول کرے یا پھر جنگ کیلئے تیار ہو جائے۔ پرتھوی نے انکار کیا اور سارے ہندوستان میں پھیلے راجوں اور مہاراجوں سے مدد کی اپیل کی کہ اب ہندوستان اور ہندو مذہب کی بقا کا سوال ہے اور فیصلہ کن معرکہ آن پہنچا ہے۔ہندوستان کے 150سے زائد راجوں اور مہاراجوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر افواج روانہ کیں۔ تاریخ فرشتہ کے مصنف لکھتے ہیں کہ پرتھوی کی اس فوج میں تین ہزار کا ہاتھی سوار دستہ تھا (اتنا بڑا ہاتھی سوار دستہ دنیا کی تاریخ میں کسی جنگ کے لئے نہ اس سے پہلے کبھی بنا تھا اور نہ اس کے بعد) فوج میں تین لاکھ گھڑ سوار تھے جبکہ پیدل فوج اس کے علاوہ تھی۔

سلطان اپنی فوج لے کر ایک بار پھر ترائن کے میدان میں پہنچ گیا جہاں اس کی 12سو سپاہ کو پرتھوی نے بڑی فوج کے ساتھ چوروں کی طرح حملہ کر کے” وجے دیواس ”یعنی عظیم فتح کا دعویٰ کیا تھا۔ یہاں پہنچ کر سلطان نے ایک بار پھر پرتھوی کو ہتھیار ڈالنے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو پرتھوی نے ٹھکرا دی۔ سلطان نے اس پر طبل جنگ بجا دیا۔ سلطان نے اپنی فوج کو 5حصوں میں تقسیم کیا۔ اس کے ماہر تیرانداز دستوں نے پرتھوی کی فوج پر نماز فجر کے بعد دعائوں کے ساتھ حملہ کیا تو پرتھوی نے ہزاروں ہاتھیوں کو فوری حرکت دی۔ ہاتھیوں کے اس سونامی نے اس قدر اودھم مچایا کہ تیر انداز حملہ آور دستے پیچھے ہٹ گئے۔ سلطان نے نئی حکمت عملی اپنائی۔انہوں نے فوج کے 4الگ الگ دستے بنائے اور پھر پرتھوی کی فوج پر چار اطراف سے حملہ کیا تو پانچواں دستہ اپنے پاس ”ریزرو” میں رکھا۔ یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔

خونریز جنگ میں سلطان کے جاں نثار مجاہدوں کی بہادری نے ہزاروں ہاتھیوں اور لاکھوں گھڑ سواروں کو ایسا کاٹا اور پسپا کیا کہ بڑی تعداد ماری گئی اور بے شمار بھاگ گئے۔ پرتھوی کی فوج کا سربراہ جنرل کھانڈے رائو میدان میں مارا گیا تو فوج دلبرداشتہ ہو گئی۔ شام کے وقت سلطان نے خود میدان میں اتر کر 12ہزار فوج کے ساتھ پرتھوی کی فوج کے اس محفوظ ترین مرکزی مقام پر حملہ کیا جہاں پرتھوی انتہائی مضبوط اور محفوظ ترین گھیرے میں موجود تھا۔ بہادر سلطان کی تلوار کی کاٹ نے ایسا غضب ڈھایا کہ سلطان کا ہر سپاہی پرتھوی کے اس بہادر ترین دستے پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ میدان جنگ سے پرتھوی گرفتار اور پھر قتل ہوا۔یہ جنگ اور اس میں عبرتناک شکست آج بھی بھارت کے ان ہندوئوں کے سینے پرپڑابھاری پتھر ہے

Pakistan

Pakistan

جسے وہ بھلانے کیلئے کبھی 1971ء کی اس جنگ کا جشن”وجے دیواس” مناتے ہیں (جو انہوں نے میدان میں لڑ کر نہیں بلکہ 24 سال کی سازشوں سے بظاہر ”جیتی” تھی۔)اس جنگ میں لڑنے مرنے والے بنگالی تھے جنہیں بھارت عرصہ دراز تک گمراہ کرتا اور مکتی باہنی بنا کر تربیت اور اسلحہ دیتا رہا۔ اسی نے اگر تلہ سازش کی، مجیب نگر میں پہلی جلاوطن بنگالی حکومت قائم ہوئی اور پھر ساری دنیا کو ساتھ ملا کر بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا، ایک طرف 34ہزار وہ پاکستانی فوجی تھے جو اپنے مرکز سے 2 ہزار کلومیٹر دور بے دست و پا تھے تو دوسری طرف بے پناہ فوج،لامحدود کمک اور عالمی حمایت کے ساتھ کھڑا بھارت… یعنی یہ ہر لحاظ سے ویسی ہی فتح تھی جیسی پرتھوی نے عبرتناک شکست اور مارے جانے سے ایک سال پہلے کی جنگ میں حاصل کی تھی۔

کیسی حیرت کی بات ہے کہ بھارت کی وہ ہندو قوم جنہوں نے تاریخ میں کبھی کوئی ملک فتح نہیں کیا، کبھی فوج لے کر اپنے خطے سے باہر نہیں نکلے، ہزار سال مسلمانوں کی اور پھر انگریز کی غلامی کی۔آج 1971ء کی جنگ کی ”فتح” کے یوں شادیانے بجاتے ہیں جیسے ان جیسی جنگ تاریخ عالم میں نہ کسی نے لڑی ہے اور نہ کسی نے اتنی بڑی کامیابی کبھی حاصل کی ہے۔ اپنی خفت مٹانے کیلئے وہ مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے پر نکلے ہوئے ہیں یعنی وہ وہی ”شدھی تحریک” چلاناچاہ رہے ہیں جس کے بانی سوامی شردھانند کو جب ایک غیرت مند مسلمان مجاہد عبدالرشید نے قتل کیا تو ایک ہی قتل کے بعد 90سال تک ہندوئوں نے دوبارہ اس تحریک کا نام بھی نہیں لیا۔

India

India

بھارت میں اب مودی کی حکومت آئی ہے تو انتہا پسند ہندوئوں کو پھر سے پرتھوی راج چوہان کی یاد ستانے لگی ہے۔ پہلے وہ پرتھوی میزائل بنا کر دل کو تسلی دیتے تھے تو اب وہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ800سال بعد ان کی مذہبی حکومت قائم ہوئی ہے اور وہ اب سارے خطے کو ہندو بنائیں گے۔دوسری طرف ان کے نیتائوں اور میڈیا پر طاری لامتناہی خوف دیکھ لیں کہ وہ کس طرح حافظ محمد سعید اور جماعة الدعوة کا نام لے لے کرہا ہا کار مچا رہے ہیں اور ساری دنیا کو دہائیاں دے رہے ہیں۔ عجیب منظر ہے… 1971ء کی فتح کے دعوے اور کانپتے لرزتے جسم ایک ساتھ دیکھے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے ہند کے ان لوگوں کو بخوبی اندازہ ہو رہا ہے کہ سلطان شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج چوہان کے معرکے کی تاریخ پھر سے دہرائی جانے والی ہے۔

تحریر: علی عمران شاہین