برادرم مہر طفیل لوہانچ کا ظرف کہئے کہ کا رزارِ صحافت میں مجھ جیسے آبلہ پا طالب علم کو ایک ایسے موقع پر یاد کیا جب ہم خود اپنے ساتھ منسوبیت کے دن کو اہمیت دینے سے قاصر تھے تاہم اصرار کی شدت میرے سینئر محمد یعقوب مرزا کی طرف سے بھی دیکھنے میں آئی بحث کا موضوع تھا (Role of Mediato promote peace and democracy values) اور (Role of local correspondent in press of freedom) ابتدا صدرانجمن صحافیان ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ یعقوب مرزا کی طرف سے ہوئی جن کا نقطعہ نظر یہ تھا کہ مقامی سطح پر میڈیا ورکرز کے کام کی بدولت آزادی صحافت کایہ تصور دم توڑتا جارہا ہے کہ متاثرہ فریق کو ریلیف ملے گا اس کی بڑی وجہ الیکٹرانک میڈیا کے اُن نمائندوں کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ ہے جس کے تحت وہ تحقیق کا دامن جھٹک کر اپنی خبر کو سب سے پہلے بریک کرنا فرض اولین سمجھتے ہیں ہمیں انتہائی ذمہ داری سے اس پر غور کرنا چاہیئے کہ ہم جو خبر بریک کر نے جا رہے ہیں۔
اُس کے معاشرہ پر مثبت اور منفی اثرات کیا ہوں گے مجھے مرزا صاحب کی اس بات سے بھی اتفاق تھا صحافی معاشرہ کی آنکھ ہوتا ہے اور آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ پردہ بصارت پر محفوظ ہو جاتا ہے اور وہ سچ ہوتا ہے مگر اس سچ کو ایک میڈیا ورکر کی سوچ کا شاخسانہ اورذہنی اختراع ہی حقیقت میں یا جھوٹ میں ڈھالتی ہے میں نے اس فورم میں روز نامہ نئی بات کی نمائندگی کی اور میری بحث مقامی سطح پر میڈیا ورکروں کا آزادی صحافت میں کردار اور جمہوریت و امن کی ترویج میں صحافت کے رول پر تھی میں نے اپنا نقطہ نظر جس انداز میں پیش کیا اُس سے ایک چینل کے ایک فرد کو بہت تکلیف ہوئی شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میری بحث اُس جیسے دیگر کرداروں کی عکاسی کرتی تھی سو اُس کو جذبات میں دیکھ کر مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ایسے افراد جو حوا کی بیٹی کے تقدس اور آزادی کی بات کرتے ہیں اُن کا اپنا کردار بڑا گھنائونا ہوتا ہے ایسے افراد چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے حوا کی بیٹی کو چار دیواری سے باہر لانے کا جرم کرتے ہیں اور بطور ”سوداگر ” اُس کا سودا بھی اپنی منشا کے داموں میں کرتے ہیں۔
ہم اس بحث سے نہیں نکل سکتے کہ نیوز چینلز نے مقامی سطح پر ٹیلنٹ کے بجائے پروفیشنلزم کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد کو نمائندگی کا اہل سمجھا جنہوں نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے سکیورٹی کی مد میں لاکھوں روپے متعلقہ نیوز چینلز کو جمع کرائے اور اس طرح اُنہیں اپنے بلیک دھندہ کیلئے ایک چھتری مل گئی جسے استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے معاشرتی و اخلاقی قدروں کی دھجیاں بکھیر دیں اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے اکائونٹس کے پیٹ بھرنا شروع کر دیئے جنوبی پنجاب میں ہونے والے حالیہ دو واقعات نے اس سچائی کی وضاحت کی تصدیق کر دی جن میں ایک مظفر گڑھ کی آمنہ بی بی کا واقعہ تھا۔
جس میں نیوز چینلز کے نمائندوں نے آمنہ بی بی کو پٹرول فراہم کیا اور ڈکٹیٹ کیا کہ تم متعلقہ تھانہ کی چار دیواری کے اندر تھوڑا سا پٹرول چھڑک کر صرف اپنے جسم کو ماچس کی تیلی دکھانا ہم ابتدائی مراحل میں ہی تمہاری آگ بجھا دیں گے مگر اُس نے پٹرول کی اتنی مقدار اپنے اوپر ڈال لی کہ پلک جھپکتے ہی اُس کے کپڑوں نے آگ پکڑ لی اور ڈکٹیٹ کرنے والے ٹی وی چینلز کے نمائندوں نے آگ بجھانے کی بجائے اپنی فلم بنانا شروع کر دی اور جب ایس ایچ او نے آگ بجھانے کی کوشش کی تو اُس کی ویڈیو بھی بننے لگی اس طرح آمنہ ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کی بھینٹ چڑھ گئی اس کے بعد ضلع لیہ میں حسینہ مائی کا کیس ایک نئی ایکٹنگ کے ساتھ سامنے آیا ایک بیوی جس نے ایک سال قبل پسند کی شادی کی اور جس کے والدین کے ساتھ تصفیہ کی شکل میں دو لاکھ روپے خاوند نے ادا کرنا تھے مگر مالی استطاعت نہ رکھنے کی بنا پر وہ ادا نہ کر سکا وہ فرد جو میرے ساتھ محو بحث تھا نے اور اُس کی لابی نے بلیک میلنگ اور ریٹنگ کیخاطر بیوی کو خاوند کے خلاف عزت کے لٹیرے کے طور پر لاکھڑا کیا اس لابی نے اتوار بازار سے خود ایک پنجرے کا انتظام کیا اور حسینہ بی بی کو زنجیریں پہنا کر چار چینلز جن پر ان چار نمائندوں کی دسترس ہے فوٹیج چلوادیں جبکہ اس سارے ڈرامہ کا مرکزی کردار ایک شخص تھا جس کا مطمع نظر عورت کی ناموس کی حفاظت نہیں اُسے بیچنا تھا۔
Media
بعد ازاں امن کے حوالے سے میڈیا پر میرا یہ دوش تھا کہ نائن الیون کا واقعہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کا مطلب دنیا بھر میں مسلم تشخص کو مسخ کرنا اور امن کے مذہب اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور مسلمان کو دہشت گرد قرار دینا مقصود تھا یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے کرہ ارض پر مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا خصوصا ً عیسائی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا یہ واقعہ کروسیڈ وار کا بھی عنوان بنا نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعدمسلم اُمہ اور وطن عزیز کا الیکٹرانک میڈیا ریاست کا مقدمہ عالمی فورمز پر اور کرہ ء ارض پر سامعین کی عدالت میں پیش اور اُجاگرنہیں کر سکا جس طرح کرنا چاہیئے تھا اس کی وضاحت بھی ضروری ہے مثلاً وہ مسلم نوجوان سرد جنگ میں جن کی جہادکے نام پر برین واشنگ کی گئی نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب اُن کیلئے لفظ ”دہشت گرد” کی اختراع گھڑی گئی تو ہمارے میڈیا نے بھی اُنہیں دہشت گرد کا نام دے دیا۔
الیکٹرانک میڈیا پر یہ بحث ضروری تھی کہ کل کے مجاہد آج دہشت گرد کیوں ؟یہ واقعہ در اصل اکیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈ تھا جس کی قلعی حقائق کھولتے ہیں وہ سانحہ جس میں 2973 افراد ہلاک ہو ئے 14 برس گزرنے کے باوجود امریکہ سے اہم سوالات کا جواب مانگ رہا ہے مثلا جڑواں ٹاورز جن میں دو لاکھ ٹن لوہے کے راڈ استعمال ہوئے یہ بڑے بڑے راڈ پٹرول کی آگ سے منٹوں میں کیسیجل گئے ؟جبکہ پٹرول جلنے کا درجہ حرارت اسٹیل کے نقطہ ء ِ پگھلائو سے چار گنا کم ہے؟ اس نقطے پر بحث ہونی چاہیئے تھی صرف ایک ٹاور کو گرانے کیلئے سفید فاسفورس سے بھرے ایک درجن کارگو طیاروں کوٹاور سے ٹکرایا جانا ضروری ہے تب جاکر شاید ایک ٹاور گر پاتا علاوہ ازیں ٹاور کے کونے کونے میں بارودی سرنگیں بچھائی جاتیں تو بھی یہ زمین بوس نہ ہوتا کیونکہ ورلڈ ٹریڈ کی پوری عمارت شدید زلزلہ پروف بنائی گئی تھی۔
امریکہ کے پاس اس سوال کا جواب بھی نہیں کہ 19 خود کش بمباروں میں سے 5 بمبار بعد میں کیسے زندہ ہو گئے پھر نائن الیون کا واقعہ جس روز ہوا اُس روز چار ہزار یہودی چھٹی پر تھے نائن الیون کاواقعہ اس حوالے سے بھی فراڈ کے زمرے میں آتا ہے کہ ابتدائی نشری تقریر میں بش انتظامیہ کا ہدف اُمت ِ مسلمہ تھی اسی واقعہ کو جواز بنا کر امریکیت نے افغان سرزمین پر 8 اکتوبر 2001 کو اپنی افواج اُتاریں یہی واقعہ عراق کی بربادی کا سبب بنا جس میں امریکیت نے 6 لاکھ معصوم بچوں کو ممنوعہ فاسفورس اور کیمیکل بموں کی بھینٹ چڑھا دیا صدام حسین کو اپنی خود ساختہ عدالت لگا کر سزائے موت دی، لیبیا کے کرنل قذافی کی موت کا پس منظر بھی نائن الیون کا خود ساختہ واقعہ بنا غیرت و حمیت سے عاری آمر پرویز مشرف نے امریکہ کی ایک دھمکی پر لبیک کہہ کر وطن عزیز کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اس جنگ کی نذر ہو گئیں، ڈرون اور خود کش حملے بھی اِسی جنگ کا نتیجہ ہیں جن میں 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے اور جانے اس کی آڑ میں امریکیت کی بدمعاشی کا سلسلہ کہاں جا کر رکے مگر مجھے کہنے میں یہ عار نہیں کہ مسلم اُمہ کی دسترس میں خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اس واقعہ کی آڑ میں اُس جواز کی نفی کرنے میں ناکام رہا جس کے تحت مسلم دینا کے چہرے پر دہشت گردی کا لیبل لگا پرنٹ میڈیا کی بات اور ہے اُس نے مسلم ریاستوں میں اپنا کردار بڑا واضح طور پر نبھایا مثلاً ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے اخبار میں ”افغان باقی، کہسار باقی ” کو واضح کیا جہاں تک جمہوریت کیلئے میڈیا کا کردار ہے تو وہ بڑا واضح ہے جنرل ضیا کے دور میں 13 مئی 1978ء کو خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری اور ناصر زیدی کو کوڑے مارے گئے ان کا جرم صرف یہ تھا کہ اُنہوں نے جمہور کی آواز اُٹھائی تھی، ریفرنڈم کے موقع پر فیصل آباد میں مشرف نے انتظامیہ کے ذریعے صحافیوں پر تشدد کرایا احباب دیرینہ رانا خالد شوق ،محمد جمیل ڈونہ، امانت شاہ، عبدالرحمان فریدی، احسن باجوہ، رانا عبدالرب کا ساتھ اس محفل میں خوشگوار رہا جبکہ اہتمام کرنے والے مربی مہر محمد طفیل، مہر زبیر، حسینی صاحب کیلئے داد کہ اُنہوں نے ایک اچھے موقع پر ایک اچھے پروگرام کا اہتمام کیا۔