اس سال بھی ٥ فروری ٢٠١٩ء کو پوری دنیا میں کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا گا۔ پاکستان کے عوام بھی کبھی آزاد کشمیر کوہالہ پل سے اسلام آباد تک انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اور کبھی کسی اور رنگ میں اظہار یکجہتی کرتے رہتے ہیں۔ یہ دن کشمیریوں کی پشتی بان جماعت اسلامی پاکستان کے، امیر مرحوم قاضی حسین احمد کی اپیل پر پہلی دفعہ ١٩٩٠ء میں پاکستان میں منا یا گیا تھا۔ اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف صاحب نے اس کی تائید کی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین ،بے نظیر صاحبہ وزیر اعظم پاکستان کی حکومت نے اسے قومی دن قرار دے کر منانے کی منظوری دی تھی۔ اس دن سے آج تک کشمیری ساری دنیا اور پاکستان کے عوام پاکستان میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں۔دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جانب سے شروع کردہ جنگ آزادی اور پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پرمقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیری بھارتی قابض دہشت گرد اور سفاک فوج کی گولیوں سے چھلنی ہو کر، پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر، اپنی منزل اسلامی جمہوریہ پاکستان مثل مدینہ ریاست کے اپنے بھائیوں سے ملنے کی تمنا اپنے دلوں میں لیے ہوئے، اپنے رب کے پاس جنت میں پہنچ رہے ہیں۔ یہ قربانیوں کا سلسلہ ١٩٤٧ء سے شروع ہوا جو اب تک جاری ہے اور تکمیل پاکستان تک جاری رہے گا۔
تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت جہاں ہندو اکثریت میں تھے وہاں بھارت اور جہاں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں پاکستان بنا۔کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اس فارمولہ کے تحت الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی ۔ مگر کشمیر کی ہندو راجہ نے بھارت کے ساتھ شرکت کے لیے خط لکھا۔ یہ سراسر کشمیریوں کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی تھی۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اس وقت پاکستانی فوج کے سربراہ جرنل گریسی کو قائد اعظم نے کشمیر پر فوج کشی کے لیے حکم دیا مگر جرنل گریسی نے قائد کا حکم نہیں مانا۔ پاکستان فوج،پونچھ کے کشمیریوں اور پاکستان کے قبائل نے کشمیر پر چڑھائی شروع کی۔ موجودہ آزاد کشمیر کی تین سو میل لمبی اور تیس میل چوڑی پٹی آزاد کر لی۔
گلگت و بلتستان کے عوام نے راجہ کی فوجوں کو شکست دے کر آزادی حاصل کر لی۔ جب مجائدین سری نگر تک پہنچنے لگے تو بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو صاحب نے جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ میں درخواست داہر کی اور کہا کہ امن کے بعد کشمیریوں کو حق خودارادیت دے دی جائے گی۔ مگر یہ دن اور وہ دن بھارت اپنے سیاسی پنڈت کوٹلیہ چانکیہ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنے وعدے سے مکر گیا۔پاکستان نے جیتی ہو بازی سیاست کی میز پر ہاردی۔ا قوام متحدہ جو مقتدار یہود و نصاریٰ کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ کئی قراردادیں رائے شماری کے لیے پاس کیں مگر بھارت نے آج تک ایک کوبھی مان کر نہیں دیا۔ اقوام متحدہ انڈونیشیا ء اور سوڈان کی عیسائی عوام کی بات تو فوراً مان کر ان کے دونوں مسلمان ملکوں سے آزادی دلا دی ۔ مگر مسلمان کشمیریوں کو آج تک آزادی نہ دلا سکی۔ یہ ا قوام متحدہ کا مسلمانوں کے ساتھ دوہرے نظام کا شاخسانہ ہے۔
کشمیری اُس وقت سے بھارتی فوج کے ساتھ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کی ساری سیاسی پارٹیاں مسئلہ کشمیر پر یک جان اور یک قلب ہیں۔ اس سال بھی دو دن پہلے پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے کشمیر پر پروگرام ترتیب دے کے مودی سرکار و سخت پیغام پہنچایا ہے۔ عمران حکومت نے بھی بھارت کے ساتھ پہلے کسی بھی حکومت سے بڑھ کر کشمیر کاز پر مؤقف اپنا اپنایا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اپنی حکومتوں سے ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ بھارت کے ساتھ جاحانہ رویہ رکھا جائے۔ مگربین الاقوامی معاہدوں میں جگڑی پاکستانی حکومتیں اپنی مجبوریوں کی وجہ سے بعض اوقات بھارت کے ساتھ تعلوقات میں اُونچ نیچ کرتی رہتی ہیں۔
کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ نواز حکومت مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر آلو پیاز کی تجارت ، کھیل تماشوں، گانے بجانے والوں کے دورے اور تقافتی طائفوں کے ذریعے پاکستانی اور بھارتی عوام کو عوام سے ملانے کی بے سود کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ مگر پاکستان کے عوام نے ہمیشہ بھارت کو اپنا ازلی دشمن ہی سمجھا۔ کیوں نہ ہوں بھارت نے مسلمانوں کی ریاست پر جبراً قبضہ کر لیا اور ان کے امیدوں کے ملکِ پاکستان پر فوجی چڑھائی کرکے اس کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔پاکستان کے بہادرعوام اپنی حکومتوں سے اس ظلم کا بدلہ لینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
کشمیر میں بھارت نے انسانی حقوق کی خلاف وردیوں کی انتہا کر دی ہے۔ آزادی کے لیے اپنا بنیادی حق ادا کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کرنے پرنہتے کشمیری نوجوانوں کو پہلے ہراست میں لیا جاتا ہے۔پھر اگر داودی قرار دے کرجعلی انکائونٹر ظاہر کر کے ان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جا تا ہے۔
اسکول اور کالج کے طالب علم بچیوں کو آزادی مانگنے پر گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان کی چھوٹیاں کاٹ دی جاتی ہیں۔مظاہرہ کرنے والے کوگرفتار کر کے فوجی جیپ کے بونٹ پرباندھ دیا جاتا ہے۔ آزادی کا جلوس ان پر پتھرائو کرے تو پتھر بھارتی سورما فوج کو نہ لگے۔ بلکہ کشمیر نوجوں کو ہی لگے۔کشمیری نوجوانوں کو جیل میں زیریلی غذا دی جاتی ہے۔جس سے ان کے جسم پر گوشت ختم ہو جاتا ہے وہ ہڈیوں کا چلتا پھرتا ڈھانچہ لگتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی تصاویر پر البم مارکیٹ میں عام ہیں۔ہزاروںکشمیری مظلوم عورتوں سے جنگی ہتھیار کے طور پر بھارتی سفاک فوجی اجتماہی آبروزیزی کرتے ہیں۔اس پر ایک کشمیری نے کتاب لکھ کر اپنی عوام کا مقدمہ انصاف پسند حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے پیش کیں ہیں۔
کشمیریوں کی٣٨ اجتماہی قبریں دنیا کے سامنے آ چکیں ہیں۔ آٹھ ہزار کشمیری لاپتہ کر دیے گئے ہیں۔ ١٩٤٧ء سے بھارتی فوج پانچ کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔ کشمیریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔ پیلٹ گن چلا کر سیکڑوں کشمیریوں کو اندھا کر دیا گیا ہے۔ کشمیری کے باغات، پراپرٹیاں، زری زمینوں پر کھڑی فصلوں پر گن پائوڈر ڈال کر خاکستر کر دیا جاتا ہے۔ کیا کیا بیان کیا جائے۔کشمیری عوام کی پاکستان سیاسی اخلاقی اور سفارتی مد کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ کشمیر ایک دن انشاء اللہ آزاد ہو گا۔ کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ جیت کر رہیں گے۔ بھارت کا منہ کالا ہو گا۔