تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی نوجوان معین الدین کو دنیا میں جنت مل چکی تھی ‘مرشد کریم جناب حضرت عثمان ہرونی نے نگاہِ خاص سے کثافت کو لطافت میں بدل ڈالا تھا ‘قلب و روح پر انوارات الٰہی کی اِیسی موسلا دھار بارش ہو ئی کہ نفس کا زنگ جل کر خا کستر ہو گیا برسوں کے رت جگوں اور صحرا نو ر دی کے بعد منزل ملی تھی ‘آنکھوں میں وصل کے چراغ جل اُٹھے تھے مرشد کی نگا ہِ خاص نے با طنی حواس کو بیدار کر دیا تھا ‘گمشدہ جنت پا نے کے بعد معین الدین بہت خو ش تھے با طنی حواس کیا بیدار ہو ئے کہ تما م حجابات اٹھتے چلے گئے ‘زمین کی تہہ میں چھپے خزانے نظر آنے لگے ‘آسمانوں سے اوپر تک کے منا ظر سامنے آتے گئے ‘معین الدین خو شی سے زاروقطا ر رو رہے تھے کہ پو ری کا ئنا ت میرے سامنے ہتھیلی کی طرح پھیلی ہے تو مرشد بولے حق تعالیٰ کا شکر ہے کہ تم سیراب ہو گئے ورنہ کو چہ تصوف کے ریگستان میں لو گ ایک قطر ے کو ترس جا تے ہیں۔
نو جوان معین الدین کو منزل ملی نہیں تھی بلکہ اب تو کو چہ تصوف کے پراسراررازوں سے واسطہ پڑا تھا ‘اب معین الدین نے کڑے مجا ہدوں ‘عبادت ‘ریا ضت اور چلا کشی سے گزرنا شروع کیا ‘آپ کی ریاضت بہت جا ن لیوا ثابت ہوئی تھی آپ مسلسل سات دن تک روزہ رکھتے اور پا نچ مثقال کی ٹکیہ سے افطاری فرماتے ‘اوڑھنے کے لیے صرف ایک چادر استعمال کر تے جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہو تے تھے شدید ریا ضت اور کڑے مجا ہدوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد معین الدین نے مرشد کی اجا زت سے دنیا کا سفر شروع کیا ‘ہر مسلمان کی طرح مکہ شریف جاکر کعبہ کی زیا رت کی ‘پھر شہنشاہِ دو جہاں ۖ کے در پر سر جھکا ئے حاضری دی پھر اپنی روح کی تشنگی بجھا نے کے بعد اب دنیا جہاں میں مو جود اہل حق کی محبت میں جا نے کاسفر شروع کیا ‘بغداد کی طرف جا تے ہو ئے حضرت نجم الدین کبر ی کے دیدار سے فیض یا ب ہو ئے جو تا تا ریوں سے جہاد کر تے ہو ئے جا م شہا دت سے سر فراز ہو ئے تھے ‘حضرت نجم الدین کبری سما ع کے بہت شو قین تھے حضرت معین الدین تقریبا تین ما ہ اِس کا مل درویش کی صحبت میں سما ع سے لطف اندوز ہو تے رہے ۔ اِس کے بعد تا ریخ انسانی اورکر ہ ارض کا عظیم واقعہ رونما ہو تا ہے جسے اہل حق قیامت تک یا د رکھیں گے۔
جب آسمان ‘ہوا ئوں ‘فضا ئوں اور اہل دنیا نے نسل انسا نی کے دو عظیم ترین بزرگوں کو ایک ساتھ دیکھا ‘کتنے خو ش قسمت تھے اہل بغداد جن کی نظروں نے یہ تاب ناک منظر دیکھا جب سلسلہ چشتیہ کے چراغ قادریہ سلسلہ کے چراغ کے سامنے روشن ہو ئے ‘رشک آتا ہے اِن متلا شیان حق پر جنہوں نے تا ریخ تصوف کے اِن دو عظیم ترین لو گوں کو ایک ساتھ دیکھا ‘حضرت معین الدین بغداد شہر میں شا ہ بغداد حضرت عبدالقادر جیلانی کے پا س تشریف لے گئے ‘شاہِ بغداد بہت محبت احترام سے پیش آئے ‘دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کی صحبت سے خوب فائدہ اٹھا یا ‘حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے آپ کی خو ب مہمان نوا زی کی ‘آپ کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھا لیکن شاندار مہمان نوازی کے با وجود ایک دن شہنشاہِ چشت اداس غمگین اکیلے بیٹھے تھے ‘مریدوں نے معین الدین کی اداسی کی خبر جا کر شاہِ بغداد کے گو ش گزار کر دی تو شہنشاہِ شاہِ گیلا نی بو لے میں خو ب جانتا ہوں کہ تم لو گ معین الدین کی خوب خدمت کر رہے ہو ‘یہ مہمان داری تو جسم کی ہے حقیقت میں مہمان کی روح اداس ہے ‘روح کی اداسی دنیا وی لذتوں سے نہیں جا تی ‘روح کی غذا کچھ اور ہے جب تک انہیں روح کی غذا نہیں ملے گی اُس وقت تک اُن کی اداسی نہیں جا ئے گی ‘شاہِ بغداد اچھی طرح جانتے تھے کہ معین الدین سما ع سننا چاہتے ہیں ‘سما ع سن کے اُن کی روح کی اداسی دور ہو گی ‘قا رئین خو ب جانتے ہیں کہ سلسلہ چشتیہ میں بزرگ سما ع سے خو ب شغف رکھتے ہیں جبکہ سلسلہ قادریہ کے بزرگ سما ع سے پرہیز کر تے ہیں لیکن اہل دنیا اچھی طرح واقف ہیں کہ کو چہ تصوف میں بزرگ امن پیا ر محبت بانٹتے ہیں دوسروں کی خو شی کا خیال رکھا جاتا ہے ‘دوسروں کی دل آزاری سے مکمل اجتناب کیا جاتاہے اب شاہِ گیلانی نے حق مہما ن داری ادا کر تے ہو ئے خواجہ پاک کے لیے محفل سما ع کا اہتما م کیا جن میں خو ش گلو لو گوں کو بلا یا گیا تا کہ محفل کا رنگ خو ب جم سکے ‘سما ع کے شوقین حضرات کو بھی دعوت دے دی گئی یہ حکم دے کر شاہِ جیلا نی اپنے مریدوں کے ساتھ اپنی درس گا ہ میں چلے گئے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی نے جا کر وعظ شروع کیا دوسری طرف سازندوں نے روح پرور ساز چھیڑ دئیے ‘شاہ بغداد کی پر جلال آوازسے درودیوار لر ز رہے تھے کہ اچانک جنا ب شیخ عبدا لقادر جیلانی وعظ روک دیتے ہیں آپ کی غیرمتو قع خامو شی سے مریدین حیران تھے کہ کیوں آپ نے وعظ دینا بند کر دیا ہے اِسی دوران شاہِ بغداد نے اپنا عصا پکڑا اورزمین پر رکھ کر دبا نا شروع کر دیا جیسے کسی چیز کو کنٹرول کر نے کی کو شش کر رہے ہیں ‘آپ کے دیوانے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ‘سنا ٹے کی چادر تنی تھی حاضرین سنگی مجسمے بنے حیران نظروں سے اپنے شہنشاہ ِ کو دیکھ رہے تھے آپ کے دیوانے حیران تھے کہ آخرکیا وجہ ہے جو ان کا مسیحا اِس طرح کر رہا ہے ‘ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تجسس بڑھتا جا رہا تھا شہنشاہِ جیلانی عصا مبا رک کو مسلسل زمین پر رکھ کر دبا ئے جا رہے تھے اِس کو شش میں آپ کا چہر ہ مبا رک بھی آتش جلال سے سر خ ہو رہا تھا آپ کے چہرے کے بد لتے رنگ سے حاضرین متحیر تھے کہ آخر ما جرہ کیا ہے حاضرین پہلی با ر جناب شیخ عبدالقادر جیلا نی کو اِس رنگ میں دیکھ رہے تھے ‘حاضرین کے ذہنوں میں سوا ل مچل رہے تھے کہ آپ سرکا ر کی اِس حالت کی یقینا کو ئی نہ کو ئی وجہ ضرور ہے آپ کا فی دیر تک اِس حالت میں رہے پھر آہستہ آہستہ آپ کی حالت معمول پر آتی چلی گئی ‘لگ رہا تھا کہ آپ کسی بڑے واقع یا حادثے کو روک رہے تھے ا ب وہ خطر ہ ٹلا تو آپ نا رمل ہو گئے شاہِ قادریہ حا ضرین کے چہروں پر بکھرے سو ال دیکھ رہے تھے آپ کی پر جلا ل آواز نے فضا ئوں کو ارتعاش بخشا آپ بو لے جنا ب معین الدین دوران سما ع حالت جذب و سکر میںآگئے تھے دوران سما ع جب سرور مستی اورجذب حدوں کو کراس کر گیا تو مجھے اندیشہ پیدا ہو ا کہ اگر خوا جہ چشت کی یہی حالت رہی تو کہیں بغداد میں زلزلہ نہ آجا ئے اِس طرح شاہِ بغداد نے شاہِ چشت کی میزبا نی کا حق ادا کیا ‘جناب معین الدین نے شاہِ بغداد کی صحبت سے خو ب فیض حاصل کیا پھر دعا ئوں کے ساتھ آپ بغداد سے رخصت ہو ئے اور تبریز میںجلو ہ افروز ہو ئے وہا ں پر اُن دنوں خوا جہ ابو سعید تبریزی کا خوب چرچہ تھا آپ کے روحانی تصرف کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں آپ کے مرید تھے لیکن اِن ہزاروں میں سے ستر ایسے مرید تھے جن میں سے ہر ایک کو ولا یت کا درجہ حاصل تھا مریدوں میں جلال الدین تبریزی بھی تھے۔
یہاں پر چند دن جناب معین الدین نے شیخ ابو سعید تبریزی کی صحبت میںگزار کر اپنے حصے کا روحا نی لنگر لیا اور اصفحان تشریف لے آئے ‘وہا ں پر مشہور بزرگ شیخ محمود اصفہانی موجود تھے چند دن اِس درویش با کما ل کی صحبت سے فیض یا ب ہو ئے ‘یہاں پرخوا جہ چشت نے ایک نو عمر لڑکا دیکھا جو اولیا ء کرام سے بہت عقیدت رکھتا تھااُس کا ادب و احترام دیکھ کر خو اجہ اجمیری بہت خو ش ہو ئے یہاں سے جب حضرت معین الدین جانے لگے تو نو عمر لڑکا بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا ‘شہنشاہِ چشت نے شفیق نظروں سے نو عمر لڑکے کو دیکھا اور کہا اے فرزند تم مجھ فقیر سے کیا چاہتے ہو کیوں میرے ساتھ جانا چاہتے ہو تو لڑکا بو لا شیخ آپ سے ایک محبت بھر ی چاہت ہے آپ کی غلا می آپ کی خد مت اگر مل جائے تو زمین پر جنت مل جا ئے گی ‘خوا جہ بو لے میںفقیر تمہیں کیا دے سکتا ہوں نو عمر لڑکا بولا آپ ہی میرے ما لک شہنشاہ ہیں خو اجہ چشت لڑکے سے متاثر ہوئے اپنی آغوش میں پناہ دی یہی بچہ آگے جا کر لا ڈلہ مرید خلیفہ مجاز حضرت قطب الدین بختیار کاکی بنا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org