عالمی رہنماؤں میں ہمیں جنہوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں نیلسن منڈیلا کے علاوہ صدام حسین سرِ فہرست ہیں۔ صدام حسین سے پہلا تعارف شاید چھ اگست 1990 کو ہوا تھا جب عالمی منظرنامے پر ایک ہی سرخی تھی کہ عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ سارا کام ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہوا ہے۔اس خبر کے ساتھ ہی ہر طرف صدام حسین کا نام زبان زدِ عام عام ہو گیا کیونکہ وہ عراق کے صدر تھے اور انہی کے حکم پر یہ سارا کام کیا گیا تھا۔ امریکہ نے کویت آزاد کرانے کے لے عراق پر چڑھائی کا عندیہ دیا۔پھر پانچ ماہ بعد عراق پر حملہ بھی کر دیا۔اس جنگ کا پہلو یہ تھا کہ عراق تنہا تھا اور مقابل میں تیس ممالک کی مشترکہ فوج تھی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اتحادی افواج کو تمام اڈے عراق کے گرد واقع مسلم ممالک نے دیئے تھے اور جنگ کے تمام اخراجات بھی مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب نے برداشت کیے تھے۔ اتحادی افواج کا ازم تھا کہ عراق چند گھنٹے میں گھٹنے ٹیک دے گا مگرکویت کو آزاد کروانے میں تیس ممالک کی افواج کو تین ہفتے لگے۔
اس کے بعد ہم نے صدام حسین کو جاننے کی کوشش شروع کی۔ اس دور میں ذرائع معلومات محدود تھے اور وہ بھی اغیار کے ہاتھوں میں۔ حقیقت جو نیٹ پر ملتی ہے وہ وہی ہے جو انگریزوں نے لکھی ہے۔سو حقیقت ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ صدام حسین کی شخصیت کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو کسی بھی مسلم رہنما میں ہم نے نہیں دیکھے۔
صدام حسین نے ایران کے ساتھ آٹھ سال جنگ لڑی اور پھر کویت کے قبضے کے بعد دو خلیجی جنگوں کا بھی سامنا کیا۔ بے شک ان کا نتیجہ عراق کے حق میں نہیں نکلا مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کے پاس ایک مضبوط فوج تھی۔’ ریپبلکن گارڈز’ کا شمار دنیا کی بہترین اور تربیت یافتہ افواج میں ہوتا تھا۔ عرب دنیا کے وہ واحد رہنما تھے جنہیں مضبوط فوج کا احساس تھا اور انہوں نے اپنی فوج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کر رکھا تھا۔ وہ ایٹم بم پر بھی کام کر رہے تھے مگر ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیل نے موقع پا کر ان کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ 2003 کی خلیجی جنگ میں بھی ان کی فوج نے دشمن کا کئی ہفتے مقابلہ کیا مگر جب انہوں نے دیکھا کہ دشمن فضا سے بمباری کر کے ان کی فوج کو نقصان پہنچا رہاہے تو انہوں نے اپنے فوجیوں کو بغداد کا دفاع چھوڑ کر بھاگ جانے کا حکم دیا۔ بظاہر یہ شکست دکھائی دی مگر یہ انتہائی زبردست چال ثابت ہوئی کیونکہ دشمن جب بغداد میں داخل ہوا تو ان تربیت یافتہ لوگوں نے اس پر خود کش حملے شروع کر دیئے۔ جس سے امریکہ کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ یہی طریقہ بعد ازاں افغانیوں نے بھی اختیار کیا۔ اس کا سہرا بھی صدام حسین کے سر جاتا ہے کہ اپنا ایک بھی فوجی دشمن کو نہیں دیا ورنہ ہمارے حکمرانوں نے تو ہزاروں فوجی دشمن کے ہاتھ یرغمال بنوا دئیے تھے۔
صدام حسین عراق بلکہ عرب دنیا کی وحدت کی اکائی تھی۔ فلسطینیوں کی جتنی حمایت اور مدد انہوں نے کی کسی اور حکمران نے نہیں کی۔ فلسطین کے شہدا کے خاندانوں کی وہ مالی امداد بھی کرتے تھے۔ آج بھی سعودی عرب میں ہمیں کوئی فلسطینی ملتا ہے تو وہ صدام حسین کو دعائیں دیتا ہے۔
صدام حسین کے دور میں عراق کا شمار امیر اور کھاتے پیتے ممالک میں ہوتا تھا۔ ہزاروں پاکستانی روزگار کے لئے عراق جاتے تھے اور زرِ مبادلہ پاکستان بھیجتے تھے۔ عراق کے عوام بھی خوش حال زندگی گزارتے تھے۔ صدام حسین کے متعلق امریکہ کا پروپیگنڈا تھا کہ وہ آمر ہیں اور عراق کے عوام ان سے ناخوش ہیں اور وہ عراقی عوام کو صدام کے مظالم سے نجات دلانے کے لئے آئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عراق کے عوام صدام سے خوش تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دوران جنگ انھوں نے ہتھیار اپنے عوام کو دے دیئے اور اعلان کیا کہ امریکی فوجی مارنے یا ہیلی کاپٹر گرانے والے کو انعام دیا جائے گا۔ بھلا کوئی غیر مقبول رہنما ایسا کر سکتا ہے؟وہ تو کبھی بھی ہتھیار نہ دے کہ عوام دشمن کی بجائے کہیں اس پر ہی ہتھیار استعمال نہ کر دیں۔ امریکی کے ایک صحافی نے لکھا تھا ‘ امریکہ کا یہ خیال کہ صدام حسین غیر مقبول ہیں بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اگر ریفرنڈم کروایا جائے تو عراق تو عراق وہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں ہی کلین سوپپ کر دیں۔
صدام حیسن کا ڈھائی عشروں کا دور دیکھیے۔ ملک امن و امان کا گہوارہ تھا۔ شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔حتیٰ کہ ایران عراق جنگ میں ایران نے بصرہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور جنگ ختم ہی تب ہوئی جب ایران کا بصرہ پر حملہ پسپا ہوا۔ اگر عراقی شیعہ عراق کے مخالف ہوتے تو افواج محض بزور طاقت تو علاقے اپنے قبضے میں تا دیر نہیں رکھ سکتیں۔ ملائشیا میں ایک عراقی لڑکی ملی۔ ان سے صدام کے بعد کے عراق کا حال پوچھا تو کہنے لگیں کہ صدام کے دور میں عراق ایک ملک تو تھا۔ اس کی کوئی شناخت تو تھی۔ دنیا میں ایک معتبر حوالہ تھا عراق۔ اب خانہ جنگی کا دوسرا نام ہے یہ ملک۔صدام کے دورِ حکومت کا زیادہ عرصہ جوگ ں میں ہی گزرا۔ جنگ میں انسان کی پہلی ترجیح اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت ہوتی ہے۔ تاہم صدام حسین کی انصاف پسندی یہاں بھی انہیں ممتاز مقام عطا ء کرتی ہے۔ ان کے خاندان کا کوئی فرد عراق سے باہر نہیں گیا بلکہ انہوں نے غداری کے جرم میں اپنے دامادوں کو بھی قتل کروایا۔ کیایہ کوئی معمولی بات ہے؟ ان کے دونوں بیٹے بھی عراق میں ہی امریکی فوجوں کے خلاف لڑتے ہوئے قتل ہوئے جبکہ وہ عراق میں ہی تھے۔ دوران جنگ یہ افواہ اڑی تھی کہ صدام حسین نے اپنے خاندان کو موریشس منلق کر دیا تھا۔اس پر ان کے وزیر اطلاعات نے اس کی تردید کی اور کہا ‘ صدام حسین کا خاندان عراقی عوام کا حصہ ّ ہے اور جو کچھ عراقی عوام پر بیت رہا ہے وہ بھی یہ سب برداست کر رہے ہیں اور کریں گے۔’ خود صدام حسین بغداد کی گلیوں میں نکل آئے جب کہ طیاروں کی بمباری جاری تھی۔
صدام حسین کی شخصیت انتہائی سحرانگیز اور زبردست تھی۔ اونچا قد، بھرا ہوا جسم۔ صاف رنگت۔ بڑی مونجھیں اور آنکھوں میں سنجیدگی۔ اس پر کمانڈوز والی وردی۔ رعب و دبدبہ ان کی ہر حرکت سے عیاں تھا اور ماضی قریب کا کوئی بھی رہنما دیکھ لیں، وہ سب سے بہت آگے نظر آئیں گے۔ راحیل شریف کو دیکھ کر ہمیں ہمیشہ صدام حسین ہی یاد آئے۔ ایسا ہی قد وقامت اور ایسی ہی بارعب شخصیت۔ صدام کیمتعلق کہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے آلہ کار تھے اور جب ان کی ضرورت نہ رہی تو امریکہ نے ان سے جان چھڑالی مگر یہ بات دل کو لگتی نہیں ہے۔ ہمارے ایک صدر نے امریکہ کی ایک دھمکی پر اپنا سب کچھ امریکہ پر وار دیا تھا۔ سو پاکستان پر حملہ کرنے کی امریکہ کو ضرورت ہی نہ پڑی۔ صدام ان کی بات مان لیتا تو انھیں حملہ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کسی عرب ریاست پر انہوں نے حملہ کیا؟ کیا وہاں جمہوریت ہے؟ صدام اسرائیل کے لئے خطرہ تھا اور اس کے علاوہ عرب قومیت پرستی کا حامی تھی۔ اس نے ڈالر کی بجائے یورو میں تجارت کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو کہ امریکہ کے مفادات پر براہ راست ضرب تھی۔
انسان کی فطرت ہے کہ اقتداراور اختیار اسے دنیا کی زندگی میں مشغول کر دیتے ہیں اور وہ آخرت کو بھولنے لگتا ہے۔ وہ اپنے اقتدار اور اختیار کے لئے اپنے سے طاقتور کی ہر شرط ماننے پر تیار رہتا ہے اور اقدار کی پست ترین سطح پر گرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ مگر صدام نے کبھی اقتدار کی بھیک نہیں مانی۔ انہیں موت کی سزا دی گئی تو انہوں نے رحم کی اپیل کی بجائے موت کو قبول کیا۔انہیں 2006 کے اختتامی روز یعنی 31 دسمبر عید الاضحی کے روز انہیں پھانسی لگا دی گئی۔ ہمارے نزدیک سزائے موت سب سے زیادہ اذیت ناک موت ہوتی ہے۔ حادثوں میں وفات پانے والوں پر تو موت اچانک جھپٹا مارتی ہے جبکہ بیماروں کو بھی یقین سے نہیں معلوم ہوتا کہ ان کی کتنی زندگی باقی ہے۔اس کے برعکس سزائے موت پانے والوں کو تو تاریخ اور وقت پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔اس میں مجرم اپنے سانس گنتا ہے جو کہ ہاتھوں سے پھسل رہے ہوتے ہیں۔تاہم صدام حسین نے جس جرات بہادری اور وقار کے ساتھ موت کو گلے لگایا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔