تحریر : عماد ظفر گو دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے بعد سے خطوط لکھنے کی رسم ماند ہو چکی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ رسم آج بھی زندہ ہے.اور سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے اس رسم کو زندہ رکھنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے.پہلے محترم وزیر اعظم نواز شریف نے پانامہ پیپرز کیس میں اپنے دفاع میں قطری شہزادے کا خط عدالت میں پیش کیا اور اب جناب عمران خان اپنے دفاع میں ایک پرانے اور دیرینہ دوست راشد خان کا خط عدالت میں لے آئے. یاد رہے یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے قطری شہزادے کے خط کو ایک مذاق قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خط کا مقصد شریف خاندان کی منی ٹریل کو ثابت نہ کر پانے کی وجہ سے اس کو چھپانے کی کوشش ہے .اب خان صاحب کی لاجک کے مطابق دیکھا جائے تو خود عمران خان صاحب یہ خط پیش کر کے اپنے ہی دئیے گئے بیانات کی روشنی میں مجرم ٹھہرتے ہیں.
خان صاحب ویسے تو اپنے آپ کو آسمانوں سے اترا ہوا ایسا فرشتہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جس میں نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ہی کوئی خامی، بلکہ اپنے آپ کو بذات خود اعلی اخلاقیات کا پیکر قرار دلوانے کی کوششوں میں بھی کمی نہیں آنے دیتے. جبکہ در حقیقت سیاسی مخالفین کی پوری زندگیوں کا حساب مانگتے خود عمران خان صرف بنی گالہ فارم ہاؤس اور ایک فلیٹ کی منی ٹریل کی تفضیلات تک دینے میں ناکام رہے ہیں. ابھی تو شوکت خانم کے نام پر ملنے والی زکوٰة میں غبن اور سیلاب کے نام پر اکھٹے کیئے گئے چندے کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہونے کے الزامات پر ان کا ثبوت پیش کرنا باقی ہے.لیکن کمال ہے محترم عمران خان صاحب اور ان کے مریدین پر جو انتہائی مہارت سے مخالفین پر دشنام طرازی کرتے خود ایک دہرا معیار قائم کیئے بیٹھے ہیں.اس دوہرے معیار کے مطابق نیازی آف شور کمپنی کو حلال تصور کیا جانا ضروری ہے جبکہ نیسکول ،نیلسن کو حرام آف شور کمپنیاں سمجھنا چائیے کیونکہ وہ مخالفین کی ملکیت تھیں.
خود شوکت خانم کے نام پر ملنے والی زکوۃ میں غبن پارٹی فنڈز میں خورد برد اور سیلاب کے نام پر اکٹھی کی گئی رقم کا کوئی حساب نہ مانگا جائے لیکن ملک میں موجود تمام سیاسی مخالفین کی پوری پوری زندگیوں کا حساب کتاب کیا جائے. جہانگیر ترین علیم خان اور دیگر حضرات جو ان کے ساتھی ہیں ان کی کرپشن اور جرائم سے منہ موڑ لیا جائے لیکن ملک میں موجود تمام سیاسی مخالفین کو کرپشن کے الزامات میں جیل میں بند کر دیا جائے. ٹیرن وائٹ کے متعلق غلط بیانی کر کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے مطابق نااہلی کی زد میں آنے دوسرے خان صاحب سے کچھ نہ پوچھا اور کہا جائے کیونکہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے البتہ مریم نواز کی دہائیوں پرانی پسند کی شادی کا تمسخر اپنی میڈیا کی ٹیم کے زریعے اڑانا کس اور کا ذاتی معاملہ میں دخل دینا نہیں ہے اور آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ خان صاحب کو چھوڑ کر تمام سیاستدانوں پر لاگو ہونا چائیے. عدالت میں مخالفین اگر کیس میں ہلکا سا بھی ریلیف مانگیں تو وہ مجرم اور گنہگار، البتہ خان صاحب چاہے کیس خارج کرنے کی استدعاوں سے لیکر تاریخ پر تاریخ لیکر کیسوں کو التوا کا شکار بنائیں وہ بالکل درست.خان صاحب کے بچے بیرون ملک تعلیم بھی حاصل کریں اور پلے بڑھیں بھی وہیں، لیکن تمام سیاسی مخالفین کے بچوں کا پاکستان میں ہی پڑھنا لکھنا اور کاروبار کرنا لازم وگرنہ تمام مخالفین کی محب وطنی پر شک کیا جائے. خود نواز شریف فضل الرحمان اور اچکزئی کو کبھی غدار اور کبھی بھارتی ایجنٹ قرار دینا جائز لیکن گولڈ سمیتھ فیملی سے رشتہ داری اور برطانوی سیاست میں اس خاندان کی پشت پناہی کرنے پر انہیں کسی بھی قسم کا طعنہ مارنا گناہ کبیرہ. غرض دہرے معیار اور قول و فعل کے تضاد کی یہ فہرست اس قدر طویل ہے کہ ایک کالم میں ان کا اعادہ کر پانا ناممکن ہے.
راشد خان جس کا مکتوب عمران خان نے بطور منی ٹریل عدالت میں جمع کروایا خود امریکہ میں ایک بدنام زمانہ اور کم سن بچیوں کے ساتھ ہم جنسی کرنے والے شخص کے طور پر مشہور ہے اور 2003 میں اس کے خلاف عداللت میں اس نوعیت کے مقدمات بھی درج ہوئے تھے لیکن چونکہ وہ خان صاحب کی قربت کا شرف رکھتا ہے اس لیئے نہ صرف اس کے سارے گناہ دھل گئے بلکہ اسے اخلاقیات کی سند بھی کم سے کم خان صاحب کے مریدین کی جانب سے حاصل ہو گئی. خیر اس مکتوب راشد کے حوالے سے نہ تو آپ کو الیکٹرانک میڈیا پر موجود پیراشوٹ اینکرز کوئی پروگرام کرتے نظر آئیں گے اور نہ ہی وہ خان صاحب سے اس معاملے میں کسی بھی قسم کا سوال کرتے نظر آئیں گے.جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دراصل خان صاحب میڈیا کیلئے ریٹنگ بڑھانے کی ریس کا گھوڑا ہیں اور میڈیا والے شاید انہیں دوڑا دوڑا کر مار کر ہی ان کی جان چھوڑیں گے. مکتوب راشد کو دیکھ کر نون میم راشد کی مشہور زمانہ نظم “خواب لے لو خواب” کی یاد تازہ ہو گئی ہے.
اس نظم میں شاعر خواب بیچتا ہے اپنے ان کہے جزبات اور قیمتی تخیل کے نرخ لگواتا ہے، جبکہ موجودہ دور میں خان صاحب بھی اپنے مریدین کو خواب بیچتے ہیں لیکن یہ خواب معرفت و خیالات کی بلندیوں سے عاری محض ان کی اپنی ذات اور ان کے کسی بھی طور وزیر اعظم بننے کی خواہش کے گرد گھومتے ہیں.شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے خوابوں کو سوائے ان کے مریدین کے کوئی بھی دوسرا شخص خریدنے کو تیار نہیں ہوتا جس کا واضح ثبوت ہر عام یا ضمنی انتخابات کے نتیجے کی صورت میں ان کے خلاف آ جاتا ہے.مرحوم نون میم راشد کی روح سے معذرت کے ساتھ ان کی نظم “خواب لے لو خواب” اگر راشد خان کے خط کے پس منظر میں پڑھی جائے تو اس کا عنوان کچھ یوں بنتا ہے” مکتوب راشد، بنی گالی اور ایک دیوانے کا خواب”ـ