تحریر : رانا اعجاز حسین حصول پاکستان کا مقصد ایک آزاد ، خودمختار ہی نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ نہایت ہی خوشی کی بات ہے اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے رجب کے مہینہ میں نماز کا حکم جاری ہوا،اور رجب ہی کے مہینے میں قیام پاکستان کے 58 برس بعد باضابطہ طور پر یہاں نظام الصلوٰة نافذ العمل کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں دارالحکومت اسلام آباد میں تمام علمائے دین کی مشاورت کے بعدیکساں میقات الصلوٰة نافذ کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد پورے ملک میں اس نظام کو نافذ کردیا جائے گا۔ اس نظام کے نفاذ کے بعد اگلے مرحلے میں پورے ملک میں سعودی طرز پر نماز کی پابندی کا قانون ہونا چاہیے۔ کیونکہ نماز، ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں نماز کی اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف قرآنِ پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارة ً اور کہیں صراحةً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔ صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء فرمایا۔ معراج کے واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور مفسرین کی رائے مختلف ہیں۔ لیکن نماز کی فرضیت کا حکم رجب کے مہینہ میں ہوا۔
پابندی نماز کی تاکید کے حوالے سے قرآنی احکا مات دیکھئے۔ قرآن کریم کر سورۂ العنکبوت کی آیت نمبر ٤٥ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ” جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔” نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوںسے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ُاس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد) ” سورۂ البقرة کی آیت نمبر ١٥٣ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داود ومسند احمد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ فرض نماز وںکے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحےة الوضوء اور تحےة المسجد کا بھی اہتمام فرماتے، اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے، سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میںمشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔
سورۂ المائدہ کی آیت ١٢میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکواة دیتے رہوگے۔ ” یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بندے کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ ” قرآن کریم میں ہی ارشاد ربانی ہے” یقینا ان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ المؤمنون) ” مومنین کی صفت’ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا،اور نماز کی پوری طرح حفاظت کر نے والے بتلایا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مومنین کی صفات کو نماز سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوںگے، جنت بھی جنت الفردوس’ جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کے لئے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ”بیشک انسان بڑے کچّے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔ (سورۂ المعارج ١٩۔٣٥) ” ان آیات میں جنتیوں کی آٹھ صفات بیان کی گئی ہیں جن کو نماز سے شروع اور نماز ہی پرختم کیا گیاہے۔ معلوم ہوا کہ نماز اللہ کی نظر میں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے۔
Hazrat Muhammad PBUH
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ اس حدیث مبارکہ کو جامع ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود، مسند احمدنے نقل کیا ہے۔” ایک دوسری جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوںگے اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔ (طبرانی)” حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ ” (بخاری ، مسلم) حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ اسکو کہا، تو ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کے لئے بڑھادئے اوربیعت کی۔ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم نے کس چیز پر بیعت کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صرف اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ،اورنماز کی پابندی کرو۔اس کے بعد آہستہ آواز میں کہا لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو۔ (نسائی، ابن ماجہ، ابوداود، مسند احمد) ”حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم ۖ نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی ، اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔
وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان ، طبرانی، بیہقی، مسند احمد)” علامہ ابن قیم نے (کتاب الصلوٰة) میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اسکی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا، اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ، اور وزارت (یا ملازمت) ہے تو ہامان کے ساتھ، اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بالکل نماز ہی نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ یا اللہ! اس انجامِ بد سے ہماری حفاظت فرما۔ آمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے یا تمہارے خلاف دلیل ہے (یعنی اگر اسکی تلاوت کی اور اس پر عمل کیا تو یہ تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگا ،ورنہ تمہاری پکڑ کا ذریعہ ہوگا)۔ (مسلم)” حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھا، ہم سب چل رہے تھے۔میں نے کہا اے اللہ کے پیغمبر! آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جسکی بدولت میں جنت میں داخل ہوجاؤں اور جہنم سے دور ہوجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکواة دو، رمضان کے روزے رکھو اوراللہ کے گھر کا حج کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اس معاملہ کی اصل، اس کا ستون اور اسکی عظمت نہ بتادوں؟ میں نے کہا ضرور۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا معاملہ کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے ، اور اسکی عظمت اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد)”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نماز وں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دیں چاہے جنت میں داخل کردیں ۔ ” ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو نماز کو (قیامت کے دن) اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے سے عہد کرکے اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو نماز کواس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہیوں سے کوتاہیاں کی ہیں تو اللہ کا اس سے کوئی عہد نہیں چاہے اسکو عذاب دیں ، چاہے معاف فرمادیں۔ (موطا مالک، ابن ماجہ، مسند احمد)” قارئین غور فرمائیے کہ نماز کی پابندی پر جس میں زیادہ مشقت بھی نہیں ہے، مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ جنت میں داخل کرنے کا عہد کرتا ہے پھر بھی ہم اس اہم عبادت سے لاپرواہی کرتے ہیں۔
ALLAH
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” جو شخص پانچوں نمازوں کی اس طرح پابندی کرے کہ وضو اور اوقات کا اہتمام کرے، رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرے اور اس طرح نماز پڑھنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ذمہ ضروری سمجھے تو اس آدمی کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا گیا۔ (مسند احمد)” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ (ترمذی، مسند احمد)” حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (آپکی خدمت کیلئے) رات گزارتا تھا، ایک رات میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی چیزیں پیش کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کچھ سوال کرنا چاہتے ہو تو کرو ۔میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے علاوہ کچھ اور۔ میں نے کہا، بس یہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدے کرو ۔ (یعنی نماز کے اہتمام سے یہ خواہش پوری ہوگی)۔ خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جو اِس دنیاوی زندگی میں نماز کا اہتمام کرکے جنت الفردوس میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرافقت پائیں۔ (مسلم)” حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ (نسائی، بیہقی، مسند احمد)” حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ۖکی زبانِ مبارک سے نکلا آخری کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ) تھا۔ (ابو داود، مسند احمد)” حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی ، نماز، نماز ۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ وصیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)” حضرت عمرو اپنے والد اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور اس عمر میں علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ ۔(ابوداود)” اس حدیث مبارکہ میں والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسکی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بلوغت سے قبل نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نمازکی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطا امام مالک)” حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقینا دین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرلیا، وہ یقینا پورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں، پھر کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں۔ آخر میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اعلان کیا گیا۔ اے محمد! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، لہذا پانچ نمازوں کے بدلے پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔ (ترمذی)”
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، لہذا سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب اس بات کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ نمازیں ان پر (ہر مسلمان پر) فرض کی ہیں۔(بخاری ،مسلم)” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی وقت پر نماز ادا کرتا ہو) (بخاری ،مسلم)” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” تم میں سے جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے(بخاری)” ہم تمام مسلمانوں کو اہم ترین عبادت نماز باجماعت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، بلاشبہ نماز دین کا اہم ستون ہے ، نماز مومن کی معراج ہے، اور مرنے کے بعد سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی سوال ہوگا۔ اس لیے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم پاکستان بھر میں نظام الصلوٰة کے مکمل نفاذ کو بھی یقینی بنائیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والا بنائے۔ اور ہماری عبادات کو اپنی بارگاہ رحمت میں قبول فرمائے۔ آ مین
Rana Aijaz
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل: ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:0300-9230033