برکلے: کمرے کے عام درجہ حرارت پر کام کرنے والا دنیا کا سب سے باریک مقناطیس بنالیا گیا ہے جس کی موٹائی صرف ایک ایٹم کے برابر ہے۔
اسے کوانٹم طبیعیات اور آہن مقناطیسیت اور دیگر امور میں استعمال کیا جا سکے گا۔ مزید امید ہے کہ اس سے بہتری میموری آلات اور نئی ٹیکنالوجی کا ظہور بھی ہوگا۔ اس سے قبل دو ابعادی (ٹوڈی) مقناطیس بنانے کی کوششیں کی گئیں جو ناکام ہوئیں۔ اس کے لیے درجہ حرارت کو کم رکھنا محال تھا۔
’ ٹوڈی مقناطیس کے لیے بہت ہی کم درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ ہمارا باریک ترین مقناطیس نہ صرف عام درجہ حرارت بلکہ مزید گرمی میں بھی کام کرتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ ایک ایٹم تک باریک مقناطیس ہے جو کامیابی سے کام کرسکتا ہے،‘ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے پروفیسر جائی یاؤ نے بتایا۔
مقناطیس سازی میں جو مٹیریئل استعمال کیا گیا ہے اس کا نام کچھ پیچیدہ ہے یعنی یہ کوبالٹ ہے جسے وان ڈر والز زِنک آکسائیڈ میں ڈبویا گیا ہے۔ اس طرح یہ گرافین آکسائیڈ، زنک اور کوبالٹ کے خواص رکھتی ہے۔ گرافین آکسائیڈ کو بہت احتیاط سے زنک اور کوبالٹ کے ایسیٹیٹ ڈائی ہائڈریٹس میں ڈبویا گیا لیکن اس میں تناسب کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔
جب اسے ایک جوف (ویکیوم) میں پکایا گیا تو سرد ہونے پر زنک آکسائیڈ کی باریک چادر ملی جس پر کوبالٹ ایٹم بکھرے ہوئے تھے۔ پھر اس کے اوپر اور یچے گرافین کی پرتیں چپکائی گئیں۔ دوبارہ اسے حرارت سے گزار کر کوبالٹ اور زنک آکسائید کی ایک واحد پرت میں ڈھالا گیا۔ اس پورے عمل میں سائنسدانوں نے اسکیننگ ٹنلنگ مائیکرواسکوپ سے مدد لی اور اس کی موٹائی کو بڑھنے نہ دیا۔ دوسری جانب ایٹم کی ترتیب کا بھی خاص خیال رکھا گیا۔
کوبالٹ کی مقدار اس کی مقناطیسیت کم اور زیادہ کرسکتی ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ پانچ سے چھ فیصد تھی جو کمزور مقناطیس کو ظاہر کررہی تھی۔ دوسرے مرحلے پر اسے 12 فیصد تک لے جایا گیا جہاں یہ طاقتور مقناطیس بنا لیکن 15 فیصد پر مقناطیسیت اتنی بڑھی کہ ذرات کا گھماؤ ایک دوسرے پر اثرانداز ہونے لگا۔ اس طرح یہ مقناطیس 100 درجے سینٹی گریڈ پر بھی اپنی افادیت برقرار رکھتا ہے۔
اس ایجاد کو اسپن ٹرونکس، الیکٹرانکس اور لچکدار میموری آلات کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔