کوئٹہ : جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کے سابق امیر ، شاہین جمعیت اور سنیٹر مولانا حافظ حمداللہ نے جمعیت طلباء اسلام ضلع قلعہ عبداللہ چمن کے سابق ضلعی نائب صدر اور معروف کالم نگار مولوی حافظ محمد صدیق مدنی تعلیمی دورانیہ کی تکمیل پر دستار فضیلت حاصل کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ زمانہ قدیم کی طرح عصرجدید کے معاشرے میں انسانوں کا باہمی تعلق مطلب پرستی اور مفاد ات کو سامنے رکھتے ہوئے قائم ہے۔
موجودہ دنیا کے انسان میں خداپرستی پر نفس پرستی غالب آچکی ہے ،آج کا انسان مادیت کا غلام بن چکا ہے،اس میں انسانیت کا احساس مٹ چکاہے ،ہر فرد جنسی خواہشات اور مادی ضروریات کی رومیں بہا جارہاہے کسی بھی وقت وہ ذراٹھہر کر یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ اللہ نے اس کو معدہ و پیٹ کے ساتھ دماغ،دل اور روح بھی عطا کی ہے اور اس کی بالیدگی کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے اخلاقی اوصاف کو درست کرے اپنے دل میں پوری انسانیت کا درد پیدا کرے کیوں کہ انسانوں کی سوچ و فکر اور ان کے عمل کا اثر پوری کائنات کے اخلاق اور معاملات پر پڑتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمۖ کو معلم اخلاق بنا کر بھیجا تھا۔قرآن میں ارشاد ہے ”انک لعلیٰ خلق عظیم”یعنی آپ ۖکا اپنا فرمان ہے کہ میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیاہوں۔مسلمانوں میں احساس ذمہ داری کا عنصر مفقود ہوگیاہے۔یوں جانا جاتاہے کہ ہم دنیامیں بس کھانے پینے ، لہوولعب میں وقت بربادکرنے ،شادی بیاہ،سیروموجودہ معاشرے کو ایک اہم عنصر جو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے وہ باہمی اتحاد و یگانگت کی عدم دستیابی ہے۔
موجودہ معاشرہ متعدد طبقوں میں بٹ چکاہے یعنی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکاہے۔اسی سبب سے دشمنان اسلام ہمیں گاجر ومولی کی طرح کاٹتے جارہے ہیں۔کیوں کہ اتحاد و اتفاق میں برکت ہے چرند ،پرند، حیوان اور انسان میں سے جو بھی اس کو اپنا لے اس میں فطرتی طور پر قوت و طاقت پیدا ہوجاتی ہے اور دشمن کے دل میں انکا خوف گھر کرجاتاہے۔اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اتحاد و اتفاق اور آپس میں بھائی چارگی کی فضاپیدا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس پر ریاست اسلامیہ مدینہ میں آپۖ نے انصار و مہاجرین میں مواخات مدینہ قائم کر کے عملی ترغیب دی۔
اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے والے تمام افراد کو یکساں حیثیت مل جاتی ہے،شخصی امتیازات کے سبب مراتب کی درجہ بندی تو ہوسکتاہے مگربحیثیت مسلم ان میں کسی قسم کی تقسیم روا نہیں رکھی یہ صحابہ کرام کا تذکرہ فرماتے ہوئے ہمیشہ جمع کا صیغہ استعمال کیاہے۔کہ یہی لوگ کامیاب ہیںِیہی لوگ راشدہیں،یہی لوگ مومن ہیں وغیرہ مگر افسوس آج ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام کے پیغام کو ملکی،سیاسی،مذہبی،صوبائی،لسانی،قومی عربی و عجمی جیسی تقسیمات میں بانٹ کر ملت کی اجتماعیت پر شب خون مار چکے ہیں۔
موجودہ دور میں ایک اور امر جس کا ہم مسلمانوں کو سامنا ہے وہ یہ کہ وقت کے تقاضوں اور ضروریات سے بے پرواہ ہوچکے ہیں۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلام تاقیامت انسانیت کی راہنمائی کے لیے آیاہے اس پر لب کشائی کی اجازت کسی کو نہیں البتہ زمان و مکان کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اسلامی دعوت کو اسی پیرائے میں پیش کرنے کی ممانعت بھی ہر گز نہیں کی گئی۔قرآن پاک میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ترجمہ۔’کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت و دانائی اور موعظ حسنہ خوش اسلوبی کے ساتھ دعو ت دیں۔موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ،انسان چاند پر اپنی کمند ڈال چکاہے،عمل اور تجربہ کے بنا کسی بات کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ حضور اور آپ کے صحابہ کی طرح اسلام کی دعوت کو پورے عالم میں پہنچانے کے لیے دعوت کے اسلوب پر از سر نو داعیان دین غور کریں۔آج کا معاشرہ دوحصوں میں منقسم ہے یا تو وہ عصرحاضرکے تقاضوں سے سر ے سے ہی واقف نہیں اگر واقف ہے بھی تو اس سلسلے میں کام کرتے وقت حکمت و دانائی کے عطیہ سے خالی ہے اور دوسرا جو عصر حاضرکے تقاضوں سے واقف تو ہے مگر وہ مغر ب کی اندھی تقلید میں ہی اپنی نجات و بھلائی محسوس کرتاہے۔
ہمارے معاشرے میں غالب عنصر اسی دوسرے طبقے سے ہیں۔ اس دوسرے طبقے کے زاویہ فکر کو درست کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو کام میں لانے کے لیے اور پوری انسانیت کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے میں جس امر کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہاپنے اسلوب دعوت کو درست کیا جائے۔