استنبول (اصل میڈیا ڈیسک) صحافی جمال خاشقجی کو پچھلے سال دو اکتوبر کے روز استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل بعد ازاں تفتیش میں سامنے آنے والے انکشافات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تاہم کئی معاملات آج بھی حل طلب ہے۔
امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے والے صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر سن 2018 کے روز ترک شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ منظر سی سی ٹی وی کی ویڈیو میں ریکارڈ ہوا۔ اس وقت ان کی منگیتر قونصل خانے کے باہر انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی واپس نہ لوٹے۔
اس کے اگلے دن یعنی تین اکتوبر کو واشنگٹن پوسٹ نے خاشقجی کو گمشدہ قرار دے دیا۔ پھر پانچ اکتوبر کو ‘بلوم برگپر نشر کردہ اپنے ایک انٹرویو میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے میں نہیں ہیں اور یہ کہ ان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں۔ ترک حکومت کے قریبی ذرائع نے اگلے دن دعوی کیا کہ خاشقجی کو قونصل خانے میں ایک خصوصی سعودی ٹیم نے قتل کیا اور یہ ٹیم اسی روز ترکی چھوڑ چکی تھی۔ ریاض حکومت نے اس بات کو بے بنیاد قرار دیا۔
سات اکتوبر سن 2018 کے روز واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دے کر لکھا کہ خاشقجی کی لاش کو سعودی قونصل خانے میں ہی ٹکڑوں میں کاٹ کر بکسوں میں کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔ پھر ‘نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ ترک حکام نے ایک مرکزی ملزم کی شناخت کی ہے، جو شہزادہ محمد بن سلمان کا قریبی ہے۔ تین دیگر مشتبہ افراد بھی ان کی سکیورٹی ٹیم کے ہی ہیں۔
بیس اکتوبر کو بالآخر ریاض حکومت نے خاشقجی کے قونصل خانے میں ایک جھگڑے کے دوران ہلاک ہونے کو تسلیم کیا۔ وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ‘فوکس نیوز کو اگلے دن انٹرویو میں کہا کہ یہ ایک بھیانک غلطی تھی اور ذمہ داران نے اپنے اختیارات کے باہر کام کیا۔ تیئس اکتوبر کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بیان دیا کہ یہ قتل ریاض کی پندرہ رکنی ٹیم نے کیا۔ چوبیس اکتوبر کو سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کو تمام سعودی شہریوں کے لیے تکلیف دہ قرار دیا۔ اکتیس اکتوبر کو ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ خاشقجی کو قونصل خانے میں اندر جاتے ہی دم گھوٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں ان کی لاش کو ٹھکانے لگا دیا گیا۔ دو نومبر کو ترک صدر نے یہ دعوی کیا کہ اس قتل کے احکامات سعودی اعلی قیادت کی طرف سے آئے۔ پندرہ نومبر کو واشنگٹن حکومت نے سترہ مشتبہ سعودی شہریوں پر پابندی کا اعلان کیا۔
سولہ نومبر کو واشنگٹن پوسٹ نے ایک نامعلوم ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قتل میں سعودی ولی عہد بھی ملوث تھے۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سی آئی اے کے پاس قابل بھروسہ شواہد موجود نہیں۔ چار دسمبر کو ری پبلکن سینیٹرز نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ محمد بن سلمان اس قتل میں ملوث ہیں جبکہ اسی ماہ کی تیرہ تاریخ کو امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے کے لیے ایک قرارداد منصور کر لی۔
رواں سال تین جنوری کو سعودی عرب میں گیارہ مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ شروع ہوا۔
رواں سال انیس جون کو اقوام متحدہ کی خصوصی اہلکار ایگنس کیلامارڈ نے کہا کہ اس بات کے کافی شواہد ہیں کہ محمد بن سلمان کا اس قتل سے تعلق ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پھر چھبیس ستمبر کو نشر کردہ ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا کہ چونکہ وہ اس وقت اقتدار میں تھے اور ملک کی قیادت کر رہے تھے، ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے تاہم ان کا اس قتل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔