عالمی جوہری کانفرنس، پاکستان کی تعریف، موقف تسلیم

World Nuclear Conference

World Nuclear Conference

تحریر : محمد اشفاق راجہ
واشنگٹن میں ہونے والی دو روزہ عالمی جوہری کانفرنس ختم ہو گئی، اگرچہ اس میں شمالی کو دیااور ایران کے جوہری پروگرام بھی زیر بحث آئے لیکن تان برصغیر کے پاکستان اور بھارت پر آکر ٹوٹی اگرچہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو محفوظ قرار دیا گیا اس کے باوجود اختتام پر دونوں کو ایک ہی سطح پر لا کر یہ کہہ دیا گیا کہ دونوں ملک اپنے جوہری پروگرام یا اسلحہ میں تخفیف کریں حالانکہ بھارت کے بارے میں یہ رپورٹ تھی کہ اس کا جوہری مواد پانچ مرتبہ چوری ہوا، یہ گلوبل حکمت عملی ہے جس کے تحت انصاف نہیں۔ توازن رکھنے کی جعلی نوعیت کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ ذرا غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ بھارت کی حمایت کر دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ امریکی صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حفاظتی نظام کی تعریف اور جان کیری نے اس سے پہلے تصدیق بھی کی کہ یہاں تحفظ کے انتظامات بہت غیر معمولی ہیں پاکستان کا بہر حال یہ موقف ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام کم از کم ہے اور دفاع کے لئے ہے جسے مزید کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت کے توسیعی پروگراموں کو لگام دی جائے اور اس کے جارحانہ عزائم کو روکا جائے۔

عالمی سیاست میں بچھی بساط پر مہرے چلنا پڑا مشکل اور بہت بڑے فہم کا کام ہے اس کے لئے قربانی اور بہت عظیم قومی جذبے کی بھی ضرورت ہے۔ بھارت کے حوالے سے خصوصی طور پر پالیسی پر نظر ثانی اور غور ضروری ہے پاکستان کے بعض اقدامات کی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے کمزوری کا تاثر دیا جاتا ہے اور تحریک انصاف کے عمران خان مفادات کا الزام لگاتے ہیں اس کے باوجود حالات کا اپنا تقاضہ ہے جو ہمارے رویئے متعین کر دیتا ہے۔ اب پٹھان کوٹ ایئر بیس ہی کے حوالے سے دیکھا جائے تو فطرت اور قدرت اپنا عمل کر رہی ہے۔ ابھی یہی کہا جا رہا تھا کہ بھارت مولانا مسعود اظہرکے ملوث ہونے کے حوالے سے ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کر سکا بلکہ بھارتی میڈیا ہی کے مطابق مسعود اظہر کی تو بری بھی کر دیا گیا اس کے باوجود پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان کی جو پانچ رکنی مشترکہ تفتیشی ٹیم بھارت گئی اس سے ضروری تعاون تو نہ کیا گیا اس کے باوجود ٹیم نے اپنا کام کیا اور اب رپورٹ کی تیاری ہے جو حکومت کو دی جائے گی اور یہ حکومت پر منحصر ہوگا کہ اسے عام کیا جائے یا نہ، بہر حال اس اثناء میں ایک اور بڑا حادثہ یا سانحہ ہو گیا کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کی تحقیقات میں شامل اہم افسر تنزیل احمد کو (بجنور228 یوپی) ان کے گھر کے باہر گولیوں سے بھون دیا گیا اور ملزم فرار بھی ہو گیا۔ یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں، اس سے قبل سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تفتیش میں راز طشت از بام کرنے والے بھارتی افسر ہمنت کرکرے کوبھی اسی انداز میں قتل کیا گیا۔ اس ہندو افسر نے سمجھوتہ ایکسپریس کی سازش طشت از بام کی اور بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنا پروہت کو ذمہ دار قرار دے کر اسے گرفتار کرنے والا تھا۔ اس افسر کو مار کر ثبوت غائب کئے گئے اور طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ علم نہیں کہ کرنل پروہت کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کہاں ہے بھارت اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں دیتا اور اب یہی رویہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کے حوالے سے اختیار کیا گیا ہے جبکہ ممبئی حادثہ یا سانحہ بھی خود ساختہ محسوس ہوتا چلا آ رہا ہے۔

برصغیر میں یہ حالات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ہے اسے دور کرنے کی ہر سعی ناکام بنا دی جاتی ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب کانگریس برسر اقتدار اور بی جے پی ضرب اختلاف میں تھی تو پاک بھارت تعلقات حکومتی سطح پر بہتر بنانے کے کئی فیصلے ہوئے رکاوٹ بھی ڈالی گئی لیکن مجموعی طور پر موجودہ حالات کی نسبت صورت حال بہتر تھی اور اب وہی کانگریس حزب اختلاف میں ہے تو ہر اس عمل کی مخالفت کر رہی ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے والا ہو، جبکہ بی جے پی کا عسکری ونگ شیو سینا کھلم کھلا متعصبانہ رویہ اور کارروائیاں کر رہا ہے یوں برصغیر میں حالات کشیدہ ہی چلے آ رہے ہیں۔

Pak-India relations

Pak-India relations

ان حالات میں ہمیں اندرونی استحکام کی زیادہ ضرورت ہے جس کے لئے زیادہ ذمہ داری برسر اقتدار حضرات پر عائد ہوتی ہے کہ حزب اختلاف تو اعتراض اور تنقید کرتی ہی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں حزب اختلاف کا رویہ انتہا پسندانہ نہیں اور پیپلزپارٹی کو اعلانیہ برصغیر میں حالات کی بہتری اور پاک بھارت تعلقات خوشگوار چاہتی ہے اسے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی سننا پڑتا ہے اس کے باوجود حکومت مکمل اتفاق رائے پیدا نہیں کر پا رہی حالانکہ پاک بھارت کشیدگی اور تعلقات کے حوالے سے سبھی کے موقف میں یکسانیت ہے اگرچہ الفاظ کا استعمال اور طریق کار کا اختلاف اپنی جگہ ہے ایسے میں قومی اتفاق رائے پیدا کر لینا آسان ہے جسے نہیں کیا جا رہا۔

یہاں تو ایک مسلسل طریق کار کے تحت پارلیمانی جماعتوں اور حکومت کے مشترکہ اجلاس ہونا چاہئیں اور قومی مسائل پر اتفاق رائے ہونا چاہئے یہ کام حکومت ہی کر سکتی ہے۔یہاں تو صورت حال پیچیدہ بنانے کی مہارت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں جاری آپریشن کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور اب انجام کے حوالے سے الزام تراشی ہو رہی ہے۔ جو کوئی بہتر طرز عمل نہیں اب حالات قدرے بہتر نظر آنے لگے ہیں تو اس دوران بہت سے اہم لوگوں کو گرفت میں بھی لیا گیا ہے اس کی بھی حمایت ہر سطح پر ہوئی ہے دینی جماعتوں نے بھی سخت گیر اعلانات کے باوجود وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر کے حقوق نسواں بل پر اپنے تحفظات بتا دیئے ہیں۔ وزیر علیٰ نے بل میں مناسب ترمیم کے لئے کمیٹی بنا دی ہوئی ہے۔ دینی جماعتوں سے ان کے نام مانگے گئے جو دینے کا وعدہ کر لیا گیا۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجہ