تحریر: سعد فاروق دنیا کی مظلوم ترین قومیت کہلانے والے روہنگیا مسلمانوں کی خبریں اس وقت ساری دنیا میں گردش کر رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بودھا کے پیروکار بودہسٹ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ بودہسٹ ظالم افواج نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے مظلوم بے بس اور نہتے مسلمانوں پر قاتلانہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، فی الوقت لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش اور برما کے سرحدی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ برما میں حکومتی مظالم سے تنگ آ کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ زندگی کی چند سانسیں اطمینان و سکون سے گزار سکیں۔ لیکن لگتا ہے کہ سکون ان کے نصیب میں نہیں۔ یہ دنیا کی واحد ایسی قومیت ہے کہ جن کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں یعنی کاغذات کے اعتبار کے لحاظ سے یہ دنیا کے انسانوں میں شمار ہی نہیں ہوتے۔ رہنے والے تو یہ برما کے ہیں لیکن برما نے ان کی شہریت 1982ء میں یہ کہہ کر منسوخ کر دی کہ ان کا برما کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔ اس وقت سے ان مسلمانوں پر بے پناہ مظالم شروع ہوئے۔ برما کی حکومت نے ان پر پابندی لگائی کہ وہ پختہ مکان نہیں بنا سکتے، دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے، شادی کیلئے رجسٹریشن ضروری ہے جو اس قدر مشکل ہے کہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہ لوگ اب بنگلہ دیش اور برما کی سرحد کے درمیان سمندر کے کنارے دلدلی زمین والے علاقوں میں جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں جہاں انہیں دنیا کی کوئی سہولت میسر نہیں۔
حکومت ان کے علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرتی بلکہ ان پر تو یہ پابندی بھی عائد ہے کہ یہ پیدل بھی ملک میں تو کجا، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک کا سفر نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ کوئی کاروبار نہیں کر سکتے، ان کے علاقوں میں کوئی اسکول نہیں یعنی ان کے بچے ہمیشہ ان پڑھ ہی رہتے ہیں اور ان کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔ برما کی حکومت نے تو ان کے پھل اور انڈے تک کھانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، مبادا کہیں یہ صحت مند ہو کر حکومت کیلئے خطرہ نہ بن جائیں۔ جون 2012ء میں ان پر اس حالت زار میں بھی بے پناہ مظالم ہوئے، ان کی بے شمار جھونپڑ بستیوں کو جلا دیا گیا اور بے شمار عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہ لوگ فریاد بھی نہیں کر سکتے کیونکہ برما کی حکومت ان کی کوئی فریاد نہیں سنتی اور یہ پولیس کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔
انہی حالات کے پیش نظر ان کی بڑی تعداد نے اپنا علاقہ چھوڑا، سعودی عرب نے چار لاکھ کو پناہ دی، ملائشیا میں ایک لاکھ سے زائد پناہ گزین ہیں تو پاکستان میں بھی دو لاکھ کے لگ بھگ رہائش پذیر ہیں۔ ان کے لئے سب سے آسان علاقہ بنگلہ دیش تھا جہاں اب بھی ان کی تین لاکھ آبادی برما کی سرحد کے کنارے انتہائی غیرانسانی ماحول میں انتہائی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ لوگ صرف زندگی کی ڈور کوٹوٹنے سے بچانے کیلئے اپنی واحد متاع بوسیدہ اور کمزور کشتی کو سہارا بناتے ہیں، اس میں چند دن کی خوراک رکھتے ہیں اور پھر سمندروں میں کود جاتے ہیں کہ کسی نہ کسی ملک کے ساحل پر جا کر اتریں گے تو کم از کم جینا تو کچھ آسان ہو جائے گا۔ اب تک ہزاروں روہنگیا مسلمان اسی آس و امید میں سمندروں میں کمزور و بوسیدہ کشتیاں ہونے کی وجہ سے غرق ہو کر سمندری مخلوق کی خوراک بن چکے ہیں (ویسے تو ان کے جسم بھی ہڈیوں کے پنجرے ہی ہیں، سمندری مخلوق کو بھی ہڈیوں کے علاوہ کچھ میسر نہیں آتا ہو گا)۔
ان کے ساتھ سمندروں میں کودتے ہوئے ایک اور حادثہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی سمگلر انہیں جھانسہ دے کر پھانستے ہیں، ان کی تمام جمع پونجی ان سے چھین کر انہیں ملائشیا پہنچانے کے نام پر کشتیوں میں سوار کرتے ہیں اور پھر کھلے سمندر میں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
کچھ کو انسانی سمگلر قیدی بنا لیتے ہیں۔ ان کی رہائی کے لئے ان کے لواحقین سے تاوان طلب کرتے ہیں یا پھر انہیں آگے بیچ دیتے ہیں۔ ہزاروں روہنگیا مسلمان انہی چکروں میں تڑپ تڑپ کر جنگلوں، دلدلی علاقوں اور ویرانوں میں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ سینکڑوں تو قید ہیں۔ گزشتہ سال مئی کے آخر میں ملائشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد پر اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ لوگ اگر تھائی لینڈ پہنچ جائیں تو بھی آسانی نہیں کہ وہاں ظلم پہلے سے کہیں بڑھ جاتا ہے۔
ان سب حالات کے باوجود دنیا کا انسانی حقوق کا کوئی ادارہ ان کے حق میں زبان کھولتا نظر نہیں آتا۔ وہی ادارے جنہیں ہمارے ملک میں ملالہ یوسف زئی اور مختاراں مائی جیسے کردار مل جاتے ہیں، انہیں یوں سسکتے، تڑپتے، مرتے روہنگیا مسلمان کبھی نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ نے اگرچہ بار بار کہا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی مظلوم ترین مخلوق ہیں لیکن اقوام متحدہ ہی نہیں، ساری دنیا کے سارے اعزازات و انعامات تو صرف ملالہ کیلئے ہیں۔ ماہ مئی 2015ء کا آغاز ہوا تو دنیا نے سننا شروع کیا کہ 8ہزار روہنگیا مسلمان سمندروں میں پھنسے ہیں جہاں سینکڑوں بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر موت کے منہ م یں جا چکے ہیں۔ اس پر اڑوس پڑوس کے کچھ ملکوں خاص طور پر ملائشیا کو خیال آیا، اس نے 29مئی کو ان لوگوں کے حوالے سے اپنی خصوصی کانفرنس بھی رکھی ہوئی تھی جس کا برما نے پہلے ہی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ جوں جوں اس کانفرنس کے دن نزدیک آتے گئے ان مسلمانوں پر ظلم بڑھتا چلا گیا۔ ملائشیا کے مفتی اعظم کے توجہ دلانے پر حکومت مزید متحرک ہوئی تو انڈونیشیا بھی میدان میں آیا، پھر ترکی نے بھی تعاون و امداد کا اعلان کیا۔ حیران کن طور پر فلپائن سے بھی تعاون کی آواز بلند ہوئی۔ پاکستان نے معاملہ او آئی سی میں اٹھانے کا عندیہ دینے پر ہی اکتفا کیا۔ اقوام متحدہ نے جب برما سے اس معاملے پر بات کی تو اس نے اقوام متحدہ کی بات ماننے سے ہی انکار کر دیا۔
امریکہ کی نورا کشتی بھی دیکھنے کو ملی جو ایک طرف روہنگیا مسلمانوں کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف برما کی حکومت سے بھی تعاون ہر روز بڑھاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ پاکستان کو تو مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے خطرناک ملک قرار دیتے ہیں لیکن جہاں کہیں بھی ظلم مسلمانوں پر ہو، اس طرف ان کی دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے والی تمام حسیات ہی کام چھوڑ دیتی ہیں۔ برما کے مظلوم مسلمانوں پر جو چاہے آندھی چلے اور ان کا خون بہے، یہ کوئی ظلم نہیں، دہشت گردی نہیں اور نہ اس حوالے سے آج تک کسی ملک یا ادارے نے برما پر کوئی پابندی عائد کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سارے المیے کے ذمہ دار مسلمان خود ہی ہیں جو ایک دوسرے کے لئے بھی آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اپنی جان بچانی چاہئے اور دوسرے کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ عالم کفر نے یکجان ہو کر ساری جنگیں اور قتل و غارت گری مسلم دنیا میں دھکیل کر سارے عالم اسلام کو دہکتی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ مسلمانوں کے ملک ایک ایک کر کے تباہی و بربادی سے دوچار ہیں اور عوام کا قتل عام ہو رہا ہے، آگ پھیلتی ہی جا رہی ہے، مسلمانوں کے خلاف یہ اتحاد اور ایکا اتنا زبردست و منظم ہے کہ دنیا کی سب سے پرامن مذہب کا دعویٰ کرنے والی بدھ قوم مسلمانوں کے معاملے پر سفاکیت کے لحاظ سے سب کو مات دے گئی ہے۔ افریقی ممالک سے شروع ہونے والی مسلم ممالک کی بدامنی، خانہ جنگی اور تباہی و بربادی عرب دنیا اور خلیج کے بعد باقی مسلم ممالک کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگر اب بھی ہم مسلمان نہ جاگے اور دنیا کی مظلوم مسلم اقوام کا دفاع کرنے کے لئے متحد و منظم نہ ہوئے تو پھر انجام مستقبل ہی نہیں، حال کی آنکھ سے ہم دیکھ سکتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے دشمن تو اپنے ملکوں میں امن و سکون سے رہ رہے ہیں، لیکن ہمیں مار بھی پڑ رہی ہے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں ہمیں مروا بھی رہے ہیں۔ آخر ہم مسلمانوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالم اسلام کے حکمران ہی نہیں عوام بھی خواب غفلت سے اٹھنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے حال میں مست ہے۔ ہر طرف ”ہنوز دلی دور است” کی کیفیت ہے تو انجام برما کے مسلمانوں سے کم نہیں ہو گا۔ اس لئے اے امت مسلمہ! اب آنکھیں کھول لو اور برما کے مسلمانوں کی مدد کے لئے آگے بڑھو.ـ
Saad Farooq
تحریر: سعد فاروق saadifarooqpk@gmail.com +92 321 1065757