تحریر : انجینئر افتخار چودھری دوستو!یہ دنیا چل چلائو ہے یہاں ان رسموں کو زندہ کرو جو کشمیر میں اشفاق ظفر سے گلے ملتے ہوئے وہاں کے وزیزر اعظم نے کی۔پاکستان تحریک انصاف اشفاق ظفر کے غم میں برابر کی شریک ہے۔میری یہ آواز کشمیری اخبارات اور پاکستان کے اخبارات کے ذریعے اہل خانہ تک پہنچے گی۔اللہ پاک مرحومہ کو جنت میں جگہ دے آمین بہت سے لوگ سر پکڑے نظر آئے تو پتہ چلا کہ شدید نقصان ہو گیا ہے۔سچ پوچھیں یہ دنیاوی نقصان انسان کے ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی ایسا فرد آپ سے بچھڑ جائے تو یقین کیجئے آپ کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے۔گھر سے دعائوں کا منبہ ،محبتوں کا سوتا اگر بہنا بند ہو تو آپ اسے زندگی کا سب سے بڑا نقصان کہہ سکتے ہیں۔میرے عزیز اشفاق ظفر تین روز پہلے اسی گھاٹے کا شکار ہوئے ہیں۔ان کی والدہ ماجدہ اس دنیا سے چلی گئیں انا للہ و انا الیہ راجعون۔انسان کتنی مجببوریوں میں جکڑا رہتا ہے اور میں بھی مجبور تھا ہٹیاں بالا سے ایک دم دور لاہور میں بیٹا نوید اور ؤبہو جنازے میں پہنچ گئے۔
صاحبزادہ اسحق ظفر کشمیر کا بھٹو کہلاتے ہیں کہتے ہیں ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے دیکھئے وؤہ کتنے تگڑے کامیاب ہوں گے جن کے پیچھے دو عورتوں کا ہاتھ تھا۔ان میں سے ایک اشفاق ظفر کی والدہ تھیں صاحبزادی نرگس اسحق ظفر کی ماں جو میری بہو ہیں(میرے بھانجے ماجد مختار گجر)کی بیگم۔بیٹیوں کی عادات سے ماں کا پتہ چل جاتا ہے۔مجھے اشفاق کی والدہ کو جانننے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ ان کی بیٹی نے ہمارے خاندان کو چار چاند لگائے ہیں مجال گئی کہ کبھی کوئی شکوہ کوئی شکائت اس کے لب سے نکلی ہو۔ہم ہیں جنہیں برداشت کرنے پر تمغہ ء حوصلہ ملا کرتا ہے۔اللہ تعالی ہمارے گھر میں اس چہکتی مہکتی بیٹی کو خوش و خرم رکھے۔سکندر مختار گجر اپنی پیاری نانو سے محروم ہوئے حراء جو ایک شرلی اور پٹاخہ ہے ننھی پری جب کشمیر سے آتیں تو ہم اس کی باتوں سے محظوظ ہوتے۔
اس بار کیا کہانیاں لائے گی۔میں ان جیسی بچیوں کو دیکھتا ہوں تو زینب اور اسماء یاد آ جاتی ہیں جو جنت مکانی ہو چکی ہیں ہم نے اپنی تیسری نسل کو کیا دیا ایک غیر محفوظ پاکستان ۔دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم ان ننھی لاشوں میں سیاست ڈھوڈتے ہیں ان کی اموات کی وجوہات کو تلاشنے کی کوشش کریں تو کہا جاتا ہے لاشوں کی سیاست کرتے ہو۔اور گزشتہ رات میں سماء کے دفتر کے اوپر ایک نجی چینیل کے ٹاک شو میں تھا میرے ساتھ احمد رضا قصوری تھے۔وہاں لائن پے نون لیگ کے ایک ایم این اے سے جب بات ہو رہی تھی تو موصوف کا کہنا تھا کہ کیا ہوا کے پی کے میں بھی تو عاصمہ کا قتل اور ریپ ہوا ہے۔گویا اب بچیاں بھی صوبائی ہو گئیں اٹھارویں ترمیم نے بہت کچھ صوبائی کر دیا اور اب یہ بھی پتہ چلا کہ بچیاں بھی اب اسی نظر سے دیکھی جائیں گیں۔یہ گلشن حیات کی وہ کلیاں ہیں جن کا کوئی بھید بھائو نہیں ہوتا یہ دنیا کی منڈی کا انمول سودا ہوتی ہیں حراء ہو زینیب ہو یا عاصمہ۔کبھی تو ہم سیاسی نفرتوں سے نکلیں۔
حراء سے میری ملاقات نہیں ہوئی نہ ماجد سے۔جا میں نہیںسکا اس لئے کہ لاہور کے تھکا دینے والے سفر نے ادھ مواء کر دیا ہے صبغتالل ورک پر ایک نیا رنگ چڑھا ہے اور وہ اب ہماری صف میں شامل ہو گیا ہے مراد صرف شدہ ہونے کی ہے پہلے وہ کنوارے تھے اب شادی کر لی ہے۔
مائوں کا بچھڑنا ایسا ہی ہے کہ محبتوں کے اس بہتے ہوئے چشمے کا پیچھے سے بند ہونا۔اللہ پاک اشفاق اور پورے قبیلے کو کنبے کو صبر دے۔ان کی والدہ مرحومہ کو دیکھ کر مجھے اپنی چچی یاد آ جاتی ہتھیں بے جی کی یاد آتی تھی اپنی ان ممانیوں خالائوں کو یاد کرتا تھا۔ہم گجر سادہ سے لوگ ہیں۔میں ان سادہ دل خواتین کو دیکھ کر حیران رہتا تھا کہ یہ وہ اس شخص کے ساتھ کیسے گزارا کر گئیں جو اپنی ٹائی اور جرابوں کی میچینگ کا بھی خیال رکھتے تھے۔صاحبزادہ اسحق ظفر جنہیں کشمیر کا بھٹو بھی کہا جاتا ہے ان جیس ا با کمال شخص میں نے نہیںدیکھا۔جن دنوں زلزلہ آیا میں نے ان کا وہ پہلو دیکھا جسے بیان کر کے میں نہیں چاہتا کہ لوگ سوال اٹھائیں کہ یہ شخص اگر ایسا ایمان دار تھا تو پیپلز پارٹی میں کیا کر رہا تھا۔یہ بھی جان جائیے کہ آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی کو دیکھ کر میں بھی کہا کرتا ہوں یہ لوگ زراداری کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ان میں سے اکثر گلے پڑے ہوئے ڈھول کو بجا رہے ہیں جائیں تو کہاں جائیں ہم نے بھی انہیں کون سا نعم البدل دیا ہے؟
اشفاق ظفر کی والدہ جنت کے اعلی مقام پر ہوں گی یقینا اللہ کے پاس اپنی بہترین اولاد کی پرورش کرنے پر انعام پا رہی ہوں گی۔صاحبزادہ صاحب کی دو بیگمات تھیں دوسری بھابی کو اللہ لمبی عمر دے۔ان کے بارے میں نرگس نے بتایا کہ صاحبزادہ صاحب ایک بار ان کے اسکول کے وزٹ پر گئے تو انہیں بغیر اطلاع غائب پا کر معطل کر دیا۔یاد رہے یہ اسکول پڑھاتی تھیں۔بعد میں بڑی تگ و دو کے بعد وہ بحال ہوئیں۔ہے کوئی ایسی مثال ہمارے جیسے لوگ ہوتے تو نالائق رشتے داروں کو آگے کر دیتے۔اللہ تعالی نے ایسے لوگ بھی اس دنیا میں پیدا کئے جو اپنی بیویوں کی نوکریپر انہیں وہ سزائیں دیتے ہیں جو دوسری خواتین ٹیچرز کو دیں۔
یاد رکھئے اگر گھر میں صابرہ اور شاکرہ نہ ہوں تو کسی شوہر کے لئے ایماندار رہنا ممکن نہیں ہوتا فرد کچھ بھی کر لے اگر اس کی بیوی اس کا ساتھ نہ دے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔میں نے صاحبزادہ اسحق کی آخری دن دیکھے ہیں ان کا جنازہ میں نے پاک کیا۔ان کی زندگی کے آخری چند دن دیکھے۔وہ واقعی خالی ہاتھ دے اپنے ہاتھوں زلزلے میں لاکھوں تقسیم کرنے والے کا بینک اکائونٹ خالی تھا۔لالچی بیویوں کے شوہر کبھی کنگال نہیں ہوتے ہاتھ پائوں مارتے ہیں جب اشفاق کو کہا دیکھو میرے ہاتھ خالی ہیں تو واقعی خالی تھے وہ مرد درویش ایک بار سب کچھ بانٹ کر واپسی کے ڈیزل کے پیسے ڈرائور کے بھائی سے لے کر مظفر آباد گئے۔مجھے پورا یقین ہے ان کی اس ایمانداری کے پیچھے صبر اور شکر کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون تھی جس کا مرثیہ لکھ رہا ہوں۔نا شکر اور بے صبری خواتین دوزخ کا ایندھن ہوں گے ۔میں نے اس گھر میں کیا پایا ،میں نے کیا خوشی پائی دوزخی خواتین کی دوزخی زبان ایسی ہی ہوتی ہے۔میاں کے مہمانوںکی آمد پر ناک بھوں چڑھانے والی اگر ہماری یہ بھاوج ہوتیں تو صاحبزادہ کبھی لیڈر نہیں بن سکتے تھے۔اللہ نے انہیں ایسی حوصلے والی بیوی دی جو انہیں لیڈر بنا گئی۔
ماں کا اس دنیا سے جانا یقین کیجئے ایک بڑا نقصان ہے زیبو بہن سے اور دوسرے سب بیٹوں سے اظہار تعزیت۔بنی حافظ ضرور حاضری دوں گا ایک شرمندہ شرمندہ سا ہو کر۔ہم کہ بکھرے ہوئے لوگ ہیں ماں اپنے بیٹے کے پاس گجرانوالہ میں میں ادھر پنڈی میں بیٹی کے ساتھ گھر سے نکلنا شام کے اوقات میں ہو سکتا ہے جب بہو گھر ہوتی ہے بیٹا دفتر سے آ جائے۔ اس پہلی جمعرات کو ایک دکھی کالم لکھ رہا ہوں۔اس میں میرے سارے دکھ شامل سمجھیں جو میں نے بے جی کو رخصت کرتے ہوئے محسوس کئے برادر خورشید صاحبزادہ منظور امتیاز ظفر اور سارے ظفر اس دنیاوی زندگی میں کامیابیوں سے ظفر یاب ہوں بیٹی فرخندہ اور سارے عزیزو میری طرف سے یہی پرسہ ہے۔
حق بات تو یہ ہے کہ اب چل چلائو کا دور ہے۔آج وہ کل ہم بلکہ کل کسی نے کیا دیکھی ہے پل کا پتہ نہیں۔ ہنست کھیلتے لوگ ہمارے ہاتھوں قبروں میں دفن ہوتے ہیں۔ ہاں ایک بات کا ذکر ضرور کروں گا ایک تصویر دیکھی جس میں راجہ فاروق حیدر اشفاق کو بانہوں میں سمیٹے افسردہ ہیں۔یہ چیز ہمارے لئے سبق ہے یہ وہ صاحبزادہ ہیں جو پانچ بار اسحق ظفر سے ہارے اور بعد از مرگ جیتے۔ہمیں یہ رسم ادھر پنجاب میں نظر نہیں ؤتی۔کیوں نہیں آتی اسے سیکھنے کے لئے ہمیں کشمیر جانا ہو گا ان سے پوچھنا ہو گا کہ کہ وہ کون سی رسم وفا ہے کہ آپ انتحابات میں مخالف اور عملی زندگی میں دکھوں کے شریک بن جاتے ہو۔
سوچنے والی بات ہے۔یہاں ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور ادھر وہ لوگ ایک دوسرے کے سینے لگ کر دکھوں کو بانٹے ہیں اس سے میرے نزدیک راجہ فاروق حیدر کا قد بڑھا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے وفادار گھرانے سے ایک بزرگ خاتون کے دنیا سے چلے جانے پر میں اپنی اور اپنے دوستوں اہل خانہ کی جانب سے اظہار افسوس کرتا ہوں میرا نصف ہاف جب گجرانوالہ سے آئے گا تو میں بھی حاضری دوں گا۔
دوستو!یہ دنیا چل چلائو ہے یہاں ان رسموں کو زندہ کرو جو کشمیر میں اشفاق ظفر سے گلے ملتے ہوئے وہاں کے وزیزر اعظم نے کی۔پاکستان تحریک انصاف اشفاق ظفر کے غم میں برابر کی شریک ہے۔میری یہ آواز کشمیری اخبارات اور پاکستان کے اخبارات کے ذریعے اہل خانہ تک پہنچے گی۔اللہ پاک مرحومہ کو جنت میں جگہ دے آمین