تحریر : شیخ خالد زاہد دنیا کو پاکستان کا وجود تسلیم کئے ۷۰ سال ہونے کو آگئے ہیں لیکن پاکستان، پاکستانیوں کو اپنی اہمیت جتانے سے قاصر رہا ہے۔ دراصل پاکستان کی واقفیت ان لوگوں سے تھی جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے تحریک چلائی اور اپنا سب کچھ اس تحریک کے نام کر کے اپنی جانوں کا نذرانہ پاکستان کے حصول کیلئے پیش کردیا۔ یقین جانئے جن لوگوں نے تحریک پاکستان کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دی ، پاکستان نے اسے یاد رکھا ۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کے بعد سے وہ لوگ آہستہ آہستہ منظرِ عام سے غائب ہونا شروع ہوگئے اور بہت جلد پاکستان کی آنکھوں سے وہ تمام لوگ کہیں پوشیدہ ہوگئے یا پھر کردئیے گئے۔ یقیناًپاکستان کو ایسا لگا ہوگا کہ اب کیا ہوگا ؟ اور میرا خیال کون رکھے گا ؟ جو لوگ میرے معرض وجود میں آنے کا سبب تھے اب تو ان میں سے کوئی بھی دیکھائی نہیں دیتا ، آہستہ آہستہ اپنائیت کا احساس دم توڑنے لگا اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ پاکستان مکمل طور پر اپنائیت کے احساس سے عاری ہوجائے ۔ جس کا ایک منہ بولتا ثبوت سکوت ڈھاکہ بھی ہے۔ پھر کیا تھا پاکستان یتیموں اور مسکینوں والی زندگی کی راہ پر گامزن ہوگیا اور آج تک ہے ۔
پاکستان کا نام ہمارے ایوانوں میں، ہماری تقریروں میں، ہماری درسگاہوں مدرسوں تک ہی زندہ ہے ۔ جس کا دل چاہا کسی کو پھانسی دیدی، کسی کا دل چاہا قومی مفاہمتی آرڈینینس بنادیا،کچھ نے مل کر میثاقِ جمہوریت بنالیا، جس کسی کا دل چاہا تو کسی کو بھی غدارِ وطن کہدیااور کسی نے کسی کو ملک بدر کردیا۔ پاکستان کے استحکام سے زیادہ پاکستان کے سیاستدانوں نے اپنے اور اپنی جماعت کے استحکام کو اہم جانا ہے۔ اس کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے سامنے گھومتی پھر رہی ہیں۔ اصول کیمطابق جب قدر کی نہیں گئی تو پھر قدر ہوگی کیسے۔
پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی اور مذہبی جماعت پہلے دن سے ہی پاکستان کو اپنی خواہش کے مطابق بنانا اور چلانا چاہتی ہے۔ جس کو بھی اقتدار ملا چاہے وہ جمہوری تھا یا پھر عسکری سب نے اپنی اپنی مرضی کا پاکستان بنا کر نا صرف دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی بلکہ عام پاکستانیوں پر بھی اپنا پاکستان تھوپ دیا۔ تحریک آزادی کے نیتجے میں بننے والا پاکستان ، ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی مرہونِ منت تھامگر افسوس وہ مسلم لیگ پاکستان بنانے میں تو کامیاب ہوگئی مگر پاکستان کی سرزمین پر اپنے قدم نا جما سکی اور ہندوستان سے پاکستان تک کے سفر میں گرم اور گرد آلود ہواؤں کی نظرہوگئی۔ پھر کیا تھا پاکستان تو جیسےِ گدھوں کی غذا بننے کیلئے رہ گیا۔ ہر سیاسی جماعت نے پاکستان کو اپنی مرضی سے توڑنا مڑوڑنا شروع کردیا، جسے اقتدار کا موقع ملا اس نے دوسرے کیساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے اسکا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
پاکستان کو ستر سالوں میں نا کوئی تعلیمی نظام مل سکا، نا پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم ہوسکی، ناپاکستان کی معیشت مستحکم ہوسکی، نا ہم کوئی مخصوص انتظامی نظام پاکستان میں رائج کر سکے، نا ہم پاکستان کو نئے صوبے دے سکے ، نا ہم پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم دے سکے، نا ہمارا زرعی نظام جدید خطوط پر استوار ہوسکا، ناتو ہم اپنی قومی زبان کو قومی زبان بنا سکے، نا ہی ہم پاکستان میں موہنجودڑو طرز کا کوئی نکاسی کا نظام دے سکے اور سب سے بڑھ کر ہم اپنی نسلوں کو محبِ وطن نہیں بنا سکے۔ وہ جو پاکستان کی پاکستانیوں سے اجنبیت تھی وہ روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی۔ ہم نے اپنے ہر برے کام کا سہرہ پاکستان کے سرپر سجا یا اور راتوں رات پاکستان کو چھوڑ کر دنیا کی کسی اور ریاست میں پناہ گزین ہوگئے۔
آج ستر سال گزر جانے کے بعد ہم نئے پاکستان کی جدوجہد ہوتے دیکھ رہے ہیں ، آج پھر پاکستان محوِ حیرت ہے اور پاکستانیوں میں اپنی محبت کی بو و باس سونگھنے کی کوشش کر رہا ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو پاکستانی خوشبو سے زیادہ درامد شدہ خوشبوئیں سونگھنے کو مل رہی ہیں۔ پاکستان کیلئے نیا پاکستان کا لفظ استعمال کرنا کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ پاکستان تو آج بھی وہیں کا وہیں ہے جہاں ۱۹۴۷ میں تھا۔ پاکستان کی نظریں آج بھی محمد علی جناح کو ڈھونڈ رہی ہیں پاکستان کے کانوں میں لیاقت علی خان پر چلنے والی گولی کی آواز گونج رہی ہے ، پاکستان خواجہ ناظم الدین کا متلاشی ہے۔ آخر کب تک ہماری نسلیں مسلم لیگ (ن) کا پاکستان ، پیپلز پارٹی کا پاکستان، تحریک انصاف کا پاکستان، جماعت اسلامی کا پاکستان ، جمیعت علمائے اسلام کا پاکستان ، متحدہ قومی موومنٹ کا پاکستان، پاکستان مسلم لیگ کا پاکستان کے نام سنتی رہینگی انہیں یہ کب سمجھایا جائے گا کہ پاکستان صرف اور صرف پاکستانیوں کا ہے۔
پاکستان کی سرحدوں کیساتھ ساتھ ایسی ریاستیں بھی ہیں جو اپنی اپنی بقاء کی اور اپنی آزادی کی جنگوں میں مصروف ہیں ۔ کشمیر میں روزانہ آزادی کے متوالے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں تو دوسری طرف افغانستان نام نہاد آزاد بنا ہوا ہے اور ہمارے فلسطینی بھائی جو اپنی ہی نہیں بلکہ اسلام کے اسلاف کی بقاء کی جنگ میں بر سرِ پیکار ہیں۔ پاکستان ہم سے یہی تکازہ کرتا سنائی دیتا ہے کہ پاکستانیوں تم ذرا اپنے آس پاس ہونے والی سازشوں پر نظر تو دوڑاؤ تم کیوں اپنی آزادی کی قدر سے محروم ہو ۔ آزادی کی قدر صرف ۱۴ اگست کو جشن منانے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر روز ملک کیلئے کچھ ایسا کرنے کا نام ہے جس سے پاکستان خوش ہو جس سے پاکستان کا نام روز بروز دنیا میں فخر سے لیا جائے۔
پاکستانی قوم پاکستان کی بقاء کیلئے پہلے دن سے قربانیاں ہی دئیے جا رہی ہے ، اب یہ سلسلہ رک جانا چاہئے اب پاکستان کو قربانی نہیں بلکہ ترقی اور خوشحالی چاہئے۔ بانیانِ پاکستان جنہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر یعنی ہماری خاطر پاکستان حاصل کیا ان کی خالصتاً جدوجہدایک آزاد اور خود مختار مملکت کی لئے تھی مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انکے پاؤں زمین پر تھے اور جب تک تادم مرگ پاؤ ں زمین پر ہی رہے مگر دکھ اور افسوس جس میں پاکستان آج بھی مبتلاء ہے وہ یہ کہ ان بانیان کہ بعد سے آج تک جی ہاں آج تک نا تو اس قوم کے پاؤں زمین پر آئے اور ہمارے حکمران تو رہتے ہی ہواؤں میں ہیں۔ہم ابھی تک ہواؤں میں گھوم رہے ہیں ہمارے پاؤں زمین پر ٹکتے ہی نہیں ہیں۔ ہمیں اب تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ایک گھر بھی اس وقت تک نہیں بنایا جاسکتا جب تک آپ کہ پاؤں زمین پر نا ہوں پھر یہ تو بیس کڑوڑ عوام کا گھر ہے اس کو بنانے کیلئے اسکو سنوارنے کیلئے پاؤں زمین پر رکھنے نہیں گاڑنے پڑینگے پھر کہیں جاکہ پاکستان کو ہماری پاکستانیت پر یقین آسکے گا اور وہ تحریک پاکستان کے لوگوں کو بھلا کر ہمیں اپنے آنکھوں میں بسالے ۔
حضرت علامہ محمد اقبال کے اشعار پر اپنے مضمون کا اختتام کرونگا؛
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ!