تحریر : ڈاکٹر محمد عدنان زندگی اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ہوا کے بعد سب سے ضروری چیز پانی ہے، تندرستی کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں پاک صاف ہوا کی طرح خالص اور پاکیزہ پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس طرح غلیظ ہوا میں سانس لینے سے ہم بیمار پڑجاتے ہیں،اسی طرح گندا پانی پینے سے ہماری صحت بگڑ جاتی ہے، معدے اور آنتوں کی مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں، بدہضمی ہوجاتی ہے، دست آنے لگتے ہیں، پیچش لگ جاتے ہیںب عض اوقات پانی میں خطرناک اور مہلک وبائی امراض کے جراثیم کی آمیزش ہوتی ہے، گندا پانی پینے سے انسان ٹائیفائیڈاور ہیضے جیسی موذی امراض میں گرفتار ہو جاتا ہے، خالص اور پاکیزہ پانی بقائے حیات کے لئے نہائت ضروری ہے اگرچہ پانی میں بذات خود کوئی غذائیت نہیں ہے مگریہ ہماری غذا اورخون کا ضروری جزو ہے،یہ ہمارے جسم کی بناوٹ میں ستر فیصد پایا جاتا ہے۔
دیہی علاقوں میں بسنے والے ایسے افراد کی تعداد دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے جنہیں صاف پانی میسر نہیں ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ صورت حال مزید سنگین ہوتی چلی جا رہی ہے۔واٹر ایڈ نامی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق چھ کروڑ تیس لاکھ دیہاتیوں کو، جو کہ برطانیہ کی مجموعی آبادی سے زیادہ تعداد ہے، پینے اور روزمرہ کے استعمال کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے۔
اس کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی، انفراسٹرچکر کی عدم دستیابی اور دشوار گزار علاقوں میں آبادی ہے۔واٹر ایڈ رپورٹ نے مزید کہا ہے کہ چین دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں چار کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر افریقی ملک اتھوپیا اور نائجیریا ہے جہاں چار کروڑ لوگ اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔
واٹر ایڈ نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو پانی کی سہولت میسر نہیں ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو دیہات میں بستے ہیں اور کسی بھی بڑی ماحولیاتی تبدیلی سے ان لوگوں کی حالتِ زار مزید ابتر ہو جائے گی۔انھوں نے مزید کہا کہ ہندستان کی 35 میں سے 27 ریاستیں ایسی ہیں جو قدرتی آفات کی زد میں آ سکتی ہیں اور ان میں ایسی ریاستیں جو پسماندہ اور غریب ہیں وہ ماحولیاتی تبدیلی یا شدید موسمی حالت میں سب سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔
دنیا بھر میں 66 کروڑ 30 لاکھ افراد ایسے ہیں جو صاف پانی سے محروم ہیں اور ان میں اسی فیصد یعنی 52 کروڑ 20 لاکھ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ان میں سے اکثریت ایسے ملکوں میں بستی ہے جنہیں پہلے ہی شدید موسمی حالات مثلاً سمندری طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی کاسامنارہتاہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے متوقع شدید موسمی حالات کی صورت میں ان افراد کے لیے مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہو سکتا ہے۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے زیادہ پھیلنے کے خطرات بڑھ جائیں گے اور زیادہ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہوں گے۔درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کسانوں کو خوراک پیدا کرنے اور مال مویشیوں کو پالنے میں مزید مشکلات پیش آئیں گی۔