تحریر : انجینئر افتخار چودھری ایک شاہ ہوتا ہے اور کچھ شاہ کے وفا دار۔ چاپلوسی کی اس دنیا میں بعض اوقات شاہ کے وفادار شاہ سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔شاہ کی الٹی حرکات کو سیدھا کرنا ان کا مقصد اولیں ہوتا ہے۔دفتروں میں اقتتدار کے ایوانوں میں ہم آئے روز تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔سنا ہے جناب وزیر اعظم کو پتھری ہے اور وہ اس کا علاج کروانے ایک بار پھر انگلستان روانہ ہونے والے ہیں۔ اللہ انہیں صحت کاملہ دے ہم سیاسی مخالفت جتنی مرضی کریں لیکن کسی کی خرابی ء صحت پر طنز کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ہماری دعا ہے کہ وہ جلد صحتیاب ہوں اور پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔
ایک وزیر نے فرمایا ہے کہ جناب وزیر اعظم کو قوم کی پسماندگی کا احساس ہے اور ان پر اس احساس نے گہرا اچر چھوڑا ہے جس کے نتیجے میں پتھری آن نکلی ہے۔ویسے ان سے کوئی پیچھے پاکستان کے ہسپتالوں میں شعبہ گردہ میں اس قسم کے پریشر والت بے شمار وزیر موجود ہیں۔خدا را بندے کو بندہ ہی رہنے دیں ۔ہر حال وہ وزیر ہیں جو جی چاہے۔ان مصاحبوں نے جن میں ایک سینئر صحافی ہیں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جناب وزیر اعظم کی آمد پر موسم کی جولانیوں کا ذکر جس انداز سے کیا تھا وہ زبان زد عام ہے۔آپ نے شہاب نامہ پڑھا ہو گا اگر نہیں پڑھا تو اسے ضرور پڑھئے گا قدرت اللہ شہاب نے پاکستان بنتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے انہوں نے ایوب خان دور کی محلاتی سازشوں کے اہم کرداروں کا ذکر کیا ہے۔میری درخواست ہے اس کتاب کو سونے سے پہلے ضرور دیکھئے گا۔
شہاب نامے میں ایک جگہ وہ کشمیری ڈوگرا راج کی ستم ظریفیوں کا ذکر کرتے ہیں طاعون کی بیماری اور طاعون کی گلٹی کا کچھ اس انداز میں لکھا گیا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس دور میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔مداحوں اور چاپلوسوں کی بات کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں ڈھاکے کی ململ کے بڑے تذکرے تھے۔آپ نے ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا یہ نور جہاں کا شہرہ ء آفاق گیت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ڈھاکے کی ململ کی کیا بات تھی۔کچھ لوگ تھے جن کی خواہش تھی کہ وہ ململ کو ہتھیائیں انہوں نے ڈوگرہ راجگان کے سر پرست کے کان میں ڈال دیا کہ حضور آپ ایک ایسے راجہ ہیں جن کے طور اطوار سب سے الگ ہونا چاہئیں لہذہ جو کپڑا دوسرے راجہ اپنے حصہ ء موئخرہ کی صفائی کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ گھٹیا ہے آپ کو ڈھاکے کی ململ استعمال کرنی چاہئے تو ایسا ہی ہوا کہ حضور راجہ صاحب جب حوائج سے فارغ ہوا کرتے تو دو بندے ململ کو گیلا کر کے وسطی علاقے سے گزار دیتے اس دو انچی مسافت میں دو تھان صرف کئے جاتے۔
مقصد ململ تھا ڈوگرہ راجے کو مطہر کرنا مقصد نہ تھا۔ اور یہاں میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ تو جی لیتے ہیں مگر ہٹو بچو والے جینے نہیں دیتے۔جس وزیر نے موجودہ اس راجے کی ستائیش کی ہے وہ بھی تو کوئی ململ کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔لوگوں کو لوگ بگاڑتے ہیں یہ لیڈران ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن مصاحبوں کی ایک لمبی قطار انہیں انسان سے مہا راجہ بنا دیتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ طہارت کے لئے ململ کے تھان استعمال کرواتے ہیں۔کبھی آپ نے سوچا ہو گا کہ راجہ صاحب جب حوائج لازمی سے فرصت پاتے ہوں گے اور جب ململ کا تھان ان کے جثے سے مس ہوتا دوسری جانب نکل جاتا ہو گا تو ان کی ہیئت کذائی پر کیا ماحول بنتا ہو گا۔حلات بدل رہے ہیں اب تو حجام بھی بغلیں نہیں مونڈھتے سچ پوچھئے یہ ہماری بد قسمتی ہے میں دیکھ رہا ہوں ہمارے اقتتدار میں بیٹھے لوگوں کی وجہ سے بے شمار لوگ تھان اکٹھے کر رہے ہیں۔
مزید بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ عام سے لوگوں کو جو ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیںآسمان کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ سننے والا بس اس چاپلوس اور سفارشی کی سنتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جلال الدین اکبر کا بیڑہ غرق کرنے والے ابوالفضل جیسے لوگ تھے۔اقتتدار میں ہوتے ہیں تو مصاحبوں کی لائینیں لگ جاتی ہیں اور باہر آ جائیں تو ان کا کوئی نام نہیں لیتا۔میں نے ان آنکھوں سے جدہ میں میاں نواز شریف کے تین دور دیکھے ہیں ایک وہ جب وہ اپوزیشن میں تھے پھر وہ بر سر اقتدار آئے پھر وہ اپوزیشن میں گئے اس طرح دو بار ان سے اقتتدار چھینا گیا۔وہ افسر جو کبھی کبھار بے نظیر سے ملاقات کی لسٹ مرتب کیا کرتے تھے ان لوگوں کو ملنے نہیں دیتے تھے جو دوسری پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور میاں صاحب کے دور میں بھی یہی ہوا یہی افسران ان لوگوں کو لسٹوں سے غائب کر دیتے جو پہلے موجود ہوتے تھے۔ایک صحافی جو اب میاں نواز شریف کی ناک کا بال ہے وہ دور مشرف میں ان کی بے وقوفی کے لطیفے گھڑا کرتا تھا۔اللہ نے ہمیں کچھ ایسی مٹی سے بنایا کہ ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔٢٠٠١میںایک بار حرم میں پیپلز پارٹی کے صدر دلشاد جانی کے ساتھ ملاقات ہوئی مغرب کی نماز پڑھی تو میں نے میاں نواز شریف صاحب کو ایک تسبیح پیش کی کہنے لگی اس میں کیا خوبی ہے جواب دیا کہ یہ اس بزرگ خاتون کی جانب سے ہے جس نے آپ کی اٹک قلعے سے رہائی کے لئے اللہ سے رو رو کے دعا مانگی۔اور وہ میری ماں ہے۔
یاد رکھئے اس پر استغفراللہ پڑھئے گا اس لئے کہ جو زیادتیاں آپ نے کی ہیں اللہ اس کی معافی دے۔اسی روز جب میاں صاحب کو عبدالرزاق جامی میاں محمد کا کلام سنا رہے تھے تو انہوں نے کہا دیکھئے چودھری صاحب دیکھئے نہ قوم کہتی تھی کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں میں بڑھایا تو لوگ پیچھے سے غائب تھے۔اللہ نے قوت اظہار دی ہے میں نے کہا میاں صاحب آپ کے دور میں قوم کو لوٹنے والے آپ کی آمد کے بعد اگر آمر کے نیچے نہیں لگیں تو اور کیا کریں بچنے کا واحد طریقہ تو یہی ہے۔میں آج دیکھتا ہوں جو آمر کے دور میں ان کی معاونت کرتے تھے وہ مزے میں ہیں۔یہ مصاحب بن کر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
میں نے جدہ میں چودھری شہباز حسین کی موجودگی میں سردار یوسف صاحب سے کہا تھا کہ ان لٹیروں سے الگ رہیں جو عبدالستار خان نیازی کے دور سے جونکوں کی طرح حاجیوں کو لوٹ رہے ہیں اور اب ریٹائر ہو کر بھی آپ کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں شنید ہے ایک گلو بٹ جیل میں ہے۔یہ در اصل وہ لوگ ہیں جو ململ کے تھانوں کی خاطر صاحبان اقتتدارسے چمٹے ہوئے ہیں۔پارٹیوں میں بھی محلوں میں بھی اسمبلیوں اور دیگر اداروں میں ان لوگوں کی بہتات ہے۔اچھا مزے کی یہ بات ہے کہ یہ آہستہ آہستہ اس قدر آدمی کو گرفت میں لے لیتے ہیں جیسے آکٹوپس اپنے شکار پر شکنجہ مضبوط کرتا ہے۔وقت آنے پر یہ لوگ صاحب اقتتدار کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں۔ کبھی کڑاکے نکلوا کر آمر زندہ باد کہہ دیتے ہیںجناب وزیر اعظم کی پتھری کے ہزار سبب ہو سکتے ہیں کوئی ترقی کی فکر کرنے کا دبائو نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے آپ کے دوتھان اس بات سے آپ کو مل جائیں گے۔