عنوان میں لکھا گیا جملہ مضمون لکھنے والے کا نہیں ہے کیونکہ ہم کسی بھی حیثیت میں اتنی حتمی بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ہاں اتنا ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ دل کی خواہش بھی یہی ہے ، اللہ کے حضور دعا بھی یہی کرتے ہیں اور بوقتِ ضرورت اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکتِ خداداد پر جان بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کرینگے۔دراصل بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کی زبان سے جومکمل الفاظ ادا ہوئے وہ یہ تھے اپنے فرائض انجام دیں اور رب پر بھروسہ رکھیں دنیا کی کوئی طاقت پاکستان ختم نہیں کرسکتی ۔ غور کیجئے ایک طرف قائداعظم ؒ کو پاکستان بننے کا یقین اور پھرپاکستان کے کبھی نا ختم ہونے کا اس سے بھی زیادہ یقین۔ قائد اعظم ؒ کے یہ تاریخی الفاظ آخر کس بنیاد پر ادا کئے ہونگے، کون سے ایسے عوامل تھے جنہوں نے قائد اعظم ؒ کو بے دریغ ایسے تاریخی الفاظ کہنے کی اجازت دیدی۔ دوسری طرف قائد اعظم ؒ پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور بے جہجک کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم ؒ یہ تھے وہ تھے ۔ ذرا سوچئے بغیر ایمان کی طاقت کہ اتنا یقین کہاں سے آتا ہے ۔ یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جن سے دشمن آج تک لڑ رہا ہے اور طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہے۔
قدرت نے ذہانت اور صلاحیتوں کا تعلق قطعی طور سے کسی خاص مذہب ، کسی خاص علاقے ، کسی رنگ یا نسل کی میراث نہیں رکھا ۔ ہر طرح کے انسان ہر مذہب ہر خطہ زمین پر پیدا کئے ہیں جوعلم کی روشنی میں قدرت کا نظم و نسق اسرار و رموز سمجھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو ان سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کی خدادا د صلاحیتیں انکو عام سے خاص بنادیتی ہیں ،منفرد بنا دیتی ہیں ۔ دنیاکو ایسے لوگوں پر فخرکرنا ہی پڑتا ہے ۔ دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جسکے لئے سب سے بڑی ہجرت کی گئی ، انسانی جانوں کیساتھ ساتھ مال و اسباب کی بیدریغ قربانیاں بھی دی گئیں۔جولوگ نظریاتی ہوتے ہیں انہیں انکے نظریات سے بھٹکانا یا ہٹانا آسان کام نہیں ہوتا کیونکہ نظریوں کی تخلیق تحقیق کی بھٹی میں ہوتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد سے سارا کا سارا دھیان سرحدوں کی حفاظت دیا گیا جس کی وجہ سے نظریہ پاکستان آہستہ آہستہ نظریہ ضرورت سے تبدیل ہوتا چلا گیا، اگرتھوڑا بہت دھیان نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر دیا جاتا تو ہم آج اتنے منقسم نا ہوئے ہوتے اور نا ہی ایک دوسرے پر غداری کے مقدمے چلارہے ہوتے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پہلے ہمیں اپنی ایک سمت کی سرحدغیر محفوظ لگتی تھی اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی پڑتی تھی مگر وقت کیساتھ ساتھ آج ہمیں اپنی چاروں سمتوں پر محافظوں کے دستے کے دستے تعینات کرنے پڑ رہے ہیں اور کہیں تو ہمیں باڑ لگانی پڑ رہی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ہم اس بات پر توجہ دلاتے چلتے ہیں کہ ہماری اس تقسیم کا فائدہ دشمن نے ہمیشہ خوب اٹھا یا ہے ۔ لسانیت کا بیج بویا کبھی فرقہ واریت کی آگ لگائی ، ہمیں کھوکھلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا افسوس صد افسوس ہم خود بھی دشمن کے الہ کار بنے رہے۔ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے عبادت گاہوں کا آگ لگادی ۔اب تو یقین ہو چلا ہے کہ اللہ کے نام پر حاصل کیا جانے والا پاکستان۔ دنیا حیران ہوتی ہے کہ پاکستان چل کیسے رہا جبکہ یہاں ہر صاحب اقتدار و اختیار بد عنوانیوں میں ملوث پایا جاتا ہے، ادارے تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔قدرت ہی پاکستانیوں کی مدد کرتی چلی جا رہی ہے۔
خدائی فوجداراپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنا اپنا کام کر رہے ہیں انہیں اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا یا پاکستان کی عوام انہیں جانتی ہے کہ نہیں وہ اپنے تخلیقی کام میں مگن ہیں۔ عمران خان کو قدرت نے خداداد صلاحیتوں سے نوازاہے اور ان صلاحیتوں میں اب تک جو چیز انتہائی قابل تحسین ہے وہ انکا عزم و حوصلہ اور جہد مسلسل ہے (یقیناًمخالفین بھی اس بات کی گواہی دینگے)۔ ذمہ داریاں انسان میں شعور اور تدبر پیدا کرتی ہیں اوریہ ان لوگوں کے حصے میں آتی ہیں جو انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت کیلئے ،ملک و قوم کیلئے، ملت کیلئے کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں ناکہ ان لوگوں میں جو لوگ انفرادی و ذاتی حیثیت کو ترجیحات میں اول درجے پر رکھتے ہیں۔
تحریک پاکستان سے وابسطہ لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان بنانا انکی ذمہ داری تھی جو مکمل ہوگئی اور وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہوتے چلے گئے ۔ دنیا نے ترقی کا سفر بہت تیزی سے طے کرنا شروع کیا ۔ پاکستان پچھلے ۷۱ سالوں سے مخصوص سوچ ، ذہنیت اور مزاج کے لوگوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ، ایسی صورتحال میں پاکستان میں ترقی بھی مخصوص انداز میں مخصوص طبقوں کیلئے آئی اور وہ طبقہ شاہی مزاج اختیار کرتا چلا گیا۔ انتخابات ہوتے رہے وہی مخصوص جماعتیں اور ان سے وابسطہ مخصوص چہرے مخصوص طرزِ حکومت اور پاکستان کی زبوں حالی۔ پھر پاکستانیوں میں آہستہ آہستہ اپنے خلاف مسلسل ہونے والی زیادتیوں سے لڑنے کیلئے شور مچانا شروع کیا کہ آخر ہم کیوں ان سہولیات سے محروم ہیں جو ہم پر مسلط کئے گئے حکمرانوں کو میسر ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں ، حقوق کیلئے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں ،ان باتوں پر قابض حکمرانوں نے دھیان نا دیا اور یہ سوال پوری قوم کی زبان تک پہنچ گیادراصل حکمران یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ قوم ان کے بنائے ہوئے حصار سے باہر نکل ہی نہیں سکتی ۔اس سارے معاملے کو سوشل میڈیا کے توسط سے ہر پاکستانی ذہن تک پہنچایا جانے لگا نشریاتی اداروں نے بھی حق تلفیوں پر آواز اٹھانے والوں کا ساتھ دینا شروع کیا ۔ اس شور شرابے میں تقریباً دو دہایاں بیت گئیں ایک نسل اس شور شرابے میں جوان ہوگئی اور اس نسل نے ہی تبدیلی کے نعرے کو فروغ بخشا اور جو جہاں دیدہ لوگ تھے وہ سمجھ گئے کہ اب اس تبدیلی کے طوفان کو روکنا بہت مشکل ہے تو انہوں نے اس تبدیلی کیلئے اپنی خدمات پیش کرنا شروع کردیں۔ اب آجائیں ۲۰۱۸ کے پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے تقریباً پورے پاکستان سے کامیابی حاصل کی گوکہ یہ کامیابی اس نوعیت کی نہیں ، جیسی کے انہیں وفاق اور صوبائی حکومتیں بنانے کیلئے کسی کو ساتھ ملانے کی ضرورت پڑتی ، فرسودگی اتنی آسانی سے جان نہیں چھوڑتی ، جہالت و غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہیں توڑی جاتیں۔
مخصوص طبقے کا خیال ہے کہ لوگ عمران خان کی چاہت میں نکلے ہوئے ہیں تو جناب میاں نواز شریف تین بار کے نااہل وزیرِ اعظم ، جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب جو ابھی خود تو طفل مکتب ہیں لیکن ایک ایسی جماعت کے سربراہ ہیں جو بہت ہی جید سیاسی لوگوں پر مشتمل ہے ، مولانا فضل الرحمان ہمیشہ اقتدار میں رہے ہیں ، جناب اسفندیار ولی صاحب، ڈاکٹر فاروق ستار صاحب، سراج الحق صاحب یہ وہ تمام معزز ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے اپنی ہار کا گمان بھی نہیں کیا ہوگا لیکن کوئی طاقت ہے جو جب سبق سیکھانے پر آتی ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو کہیں دور دور گمان میں بھی نہیں ہوتا، تو یہ کون بتائے گا کہ ان کی چاہت میں مرنے مٹنے والے لوگ کہاں چلے گئے۔اندیشے حیولے ڈراتے رہے لیکن اللہ کے حکم سے پاکستان کوکچھ نہیں ہوا ۔ تمام ہی حکمرانوں نے پاکستان کو برباد کرنے کی کوشش کی لیکن قائد اعظم ؒ کے اس یقین پر کے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی ۔جبکہ عمران خان نے قائد کہ اس فرمان کو اپنا روحانی منشور بنا لیا اور اس منشور کو صحیح سمت میں لیجانے کیلئے بلا آخر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی بائیس سالہ جہد مسلسل کا نتیجے میں اس قوم نے تبدیلی کی ذمہ داری دی ہے اور ان کے عزم و حوصلے نے پاکستانی قوم پر چھائے ہوئے مایوسی کے بادل چھٹنے کا وقت آگیا ہے۔پاکستان میں شائد ایسے انتخابات شائد پہلی دفعہ ہوئے ہیں اور اب انشاء اللہ وہتے رہینگے۔ پاکستان قائد کے فرمان سے آگے جانے کی تیاری میں مصروف ہے انشاء اللہ آنے والے دنوں میں ہم اپنے آباؤ اجداد خوش و خرم محسوس کرینگے کیونکہ انکی قربانیوں کا حقیقی وارث پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑنے کو تیار ہو چکا ہے۔