بلاآخر 86 برس کے طویل وقفے کے بعد دنیا کے عظیم تاریخی ورثے آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدائیں سنائی دیں، جمعہ کی پہلی نماز کے حوالے سے استنبول کے شہریوں میں کافی جوش و جذبہ دکھائی دیا۔ترکی کے مرد حر جب طیب اردوان نے اس موقع پر کہا کہ اب ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے۔ جسے ہم آزاد کروائیں گے۔یاد رہے کہ ترک عدالت نے 10 جولائی کو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے 11 جولائی کو عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی۔آیا صوفیہ عمارت کو 1934 ء میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، اس سے قبل مذکورہ عمارت سلطنت عثمانیہ کے قیام سے مسجد میں تبدیل کی گئی تھی۔استنبول میں واقع یہ تاریخی عمارت 1453 ء سے قبل 900 سال تک بازنطینی چرچ کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور یہ بھی معروف ہے کہ مذکورہ عمارت کو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں نے پیسوں کے عوض خرید کر مسجد میں تبدیل کیا تھا۔مگر پھر جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے اور جدید سیکولر ترکی کے قیام کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے مسجد کو 1934 ء میں میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔چرچ سے مسجد اور پھر میوزیم کے بعد دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونے والی عمارت میں 24 جولائی کو 86 سال بعد نہ صرف نماز جمعہ ادا کی گئی بلکہ اسی دن عمارت میں تقریباً 9 دہائیوں بعد اذان بھی دی گئی۔مشہور انگریز مورخ ایڈورڈ گبن کا کہنا ہے کہ پادریوں نے صدیوں سے ایک جھوٹی بشارت کی تھی کہ جب دشمن قسطنطین ستون کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔لیکن ترک فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر عمارت کے اندرونی دروازے تک پہنچ گئی۔کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ صلیبیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے، اور ایک مختصر تقریر میں سب کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔
اسی دن سلطان نے نماز ظہر اسی عمارت میں ادا کی۔ عدالت میں جو قدیم دستاویزات پیش کئے گئے ، ان کے مطابق سلطان محمد نے اس عمارت کو مال کے ذریعے خریدا تھا۔ ٹرسٹ کے وکیل کے مطابق چونکہ یہ عمارت صرف عبادت گاہ نہیں، بلکہ صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سیاسی اور عسکری مرکز بھی تھا، اسلئے مسلمان اس کو بطور باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے۔ اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک اس عمارت میں پنجوقتہ نماز ہوتی رہی اور اس دوران ترکی میں بسے عیسائیوں نہ یورپی ممالک میں کسی نے اس پر دعویٰ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں اس وقت 435قدیم کلیسا آن بان اور شان کے ساتھ موجود ہیں، جن کو کسی نے کوئی گزند نہیں پہنچائی ہے۔ ان کی مزید دلیل تھی کہ سلطان نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو دی، علاوہ ازیں سلطان نے اس مصرف کے لیے بیت المال سے بھی قیمت بھی نہیں لی بلکہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کرکے عمارت اور زمین کو وقف کر دیا۔
استنبول یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر محمد عبداللہ احسن کے مطابق فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد خلیفہ دوم حضرت عمر کی تقلید کرسکتے تھے، جب انہوں نے یروشلم فتح کرنے کے بعد کلیسا میں نماز ادا کرنے سے منع کردیا تھا۔ خلیفہ کو ڈر لاحق تھا کہ کہیں مسلمان اسکو بعد میں مسجد نہ بنالیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح کے وقت تک یورپ میں مسلمانوں کو سخت عذاب سے گذرنا پڑ رہا تھا۔ 1453 ء میں یہ فتح اسوقت نصیب ہوئی، جب اسپین میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کیا گیا تھا۔ مفتوحہ علاقوں میں عیسائی مساجد کو شہید کرکے گرجا گھروں میں تبدیل کررہے تھے۔
قرطبہ شہر پر قبضہ کے بعد تو صلیبیوں نے قتل و غارت گری کی انتہا کر دی تھی اور دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی اور خوبصورت جامع مسجد قرطبہ میں نماز پر پابندی عائد کرکے گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ استنبول میں آیا صوفیہ عیسائیوں کا کلیسا تھا، جس میں دنیا بھر کی بیشمارخرافات منائی جاتی تھیں، عیسائیوں کواس سے بہت محبت و الفت تھی ،ان کے دلوں میں اس عظیم اور دلکش عمارت کی بڑی عظمت وقعت تھی، بدقسمتی سے 1933 ء میں کمال اتاترک نیآیاصوفیہ مسجد پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسے میوزیم میں تبدیل کردیا، اور اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کرنے کے خلاف ، اس وقت جن جن علمائے کرام نے اپنی اپنی زبان وقلم کااستعمال کیا،سبھوں کو قتل کروا دیا اور”آیاصوفیہ ”اب تک اسی کے کارفرمائی کے نتیجے میں میوزیم تھا، جسے رجب طیب اردوان نے اپنی لازوال محنتوں کے ثمرہ ، اسے پھر سے مسجد میں تبدیل کرادیاہے۔
اس عظیم کارنامے نے اسلام مخالفین حواس باختہ ہوچکے ہیں، اب ان کے سینوں میں پھر سے مسلمانوں کا خوف و دہشت طاری ہونے لگا ہے، وہ کافی مرجھائے ہوئے ،اور غمگین ہیں، اب وہ سمجھ گئے ہیں، کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے، نہ کہ مغلوب ہونے کے لئے، سو سال قبل جس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا ،اسے آج بڑے ہی شان و شوکت اور کروفر کے ساتھ ،پھر سے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے ،اور اس کے میناروں سے اذان کی صدابھی بلند ہو چکی ہے۔ ترکی کے 3 امام اور 5 موذن کو خطے اور اذان کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا۔خطبہ جمعہ کے دوران امام جماعت نے طویل دعا کروائی جس میں مسلم امہ کے دوبارہ عروج کی دعائیں مانگی گئیں۔ لوگوں نے اشکبار آنکھوں سے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے نجات اور دوبارہ ایک امت بننے کی التجا کی۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے ترک صدر رجب طیب اردوان سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بھی خصوصی شرکت کی جب کہ ترک صدر نے اس موقع پر تلاوت قرآن پاک بھی کی انہوں نے سلطان محمد فاتح کے مزار پر حاضری بھی دی۔