تحریر : فرخ شہباز وڑائچ یہ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ حکومت ہے۔ آپ کی سلطنت عراق سے شام، آذربائیجان سے ایران اور مصر سے آرمینیا اور یمن تک پھیلی ہوئی ہے۔ عدل فاروقی کائنات کے 23 لاکھ مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض علاقے تک پھیلا ہے۔ تلکرم کے آخری کونے سے لے کر تہران کے اس پار تک انصاف، مساوات اور احتساب کا یکساں نظام ہے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ امیر اور غریب، سپہ سالار اور سپاہی سب برابر ہیں۔ اسی دوران 638ء میں اسلامی تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ رونما ہوتا ہے۔ لشکر اسلام کی سربراہی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ افواج کے سپہ سالار ہیں اور اس وقت محاذ جنگ پر ہیں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وہ صحابی رسول ہیں جنہوں نے ایک سو سے زائد جنگوں میں حصہ لیا۔۔ یہ 638ھ کا سال ہے حضرت خالد محاذ جنگ پر ہیں۔ جنگ اپنے زوروں پر ہے اور آپ کی افواج دشمن اسلام پر ٹوٹ پڑی ہیں۔
اسی اثناء میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خبر ہوتی ہے سپہ سالارِ وقت حضرت خالد بن ولید نے 12ہزار درہم تقسیم کردیے ہیں۔ آپ کو جونہی یہ خبر ملتی ہے آپ فوری طور پر ایک صحابی رسول کو محاذ جنگ پر روانہ کرتے ہیں اور سپہ سالار وقت کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ یہ صحابی غالباً حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح فوری طور پر محاذ جنگ پر پہنچے۔ سپہ سالار کو امیر المومنین کا حکم سنایا اور عدالت فاروقی میں پیش ہونے کی درخواست کی۔ سپہ سالار نے وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کیا: ”اے خالد بن ولید! امیر المومنین کو خبر ملی ہے کہ آپ نے 12ہزار درہم تقسیم کردیے لیکن آپ نے اس بارے خلیفہ وقت کو آگاہ نہیں کیا۔” حضرت خالد بن ولید مسکرائے اور ارشاد فرمایا: ”یہ میری ذاتی دولت تھی اور میں اپنی ذاتی دولت جہاں چاہوں استعمال کرسکتا ہوں۔” حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: ”اے سپہ سالار وقت! لیکن آپ کو عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنا ہوگی اور امیر المومنین کو اس رقم کا حساب دینا ہو گا۔
Hospital
23لاکھ مربع کلومیٹر کے وسیع وعریض علاقے پر پھیلی ریاست کے حاکم سے ملنے روم کے باشاہ کا سفیر آتا ہے۔ پوچھا جاتاہے خلیفہ وقت کہاں ہوں گے۔۔ لوگوں نے کہا”مسجد میں ہوں گے،بیت المال کی عمارت میں ہوں گے یا کسی گلی میں گشت کر رہے ہوں گے”۔رومی سفیر مسجد میں جاتا ہے کیا دیکھتا ہے ایک شخص کیکر کے درخت کے نیچے اپنا درہ سرہانے رکھ کر سو رہا ہے۔واپس آکر پوچھتا ہے وہاں تو کوئی خلیفہ نہیں وہاں تو کوئی آدمی سو رہا ہے۔بتایا جاتا ہے وہ آدمی خلیفہ وقت ہے سفیر پھر سے جاتا ہے وقت کے حاکم کی سادگی دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔قدموں کی آہٹ سے خلیفہ وقت جاگ جاتے ہیں، سفیر اس سادہ خلیفہ کا رعب و جلال دیکھ کر سہم جاتا ہے۔جی ہاں رومی سفیر واپس جا کر اپنے بادشاہ سے کہتا” میں نے زندگی میں آج تک ایسا بادشاہ نہیں دیکھا”۔کچھ لمحوں کے لئے اپنے سسٹم کی طرف دیکھیے یہاں ہمارے حکمران سیکورٹی کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کا سوچ نہیں سکتے،ان کے بچوں سے لے کر باورچیوں تک کے لیے حفاظتی دستے موجود ہیں۔
یہاں ہر سال وی آئی پی موومنٹ کے دوران کئی مریض ہسپتال جانے سے پہلے ہی اپنی جانیں دے دیتے ہیں۔ یہاں قطار میں کھڑا ہونا برا سمجھا جاتا ہے۔آپ کسی محکمے میں چلے جائیں گیٹ کیپر سے لے کر اعلی افسر ان تک ”لے دے کے” کام کرتے ہیں۔ آپ کے پاس پیسے ہیںتو آپ کی فائل کو پہیے لگا دیے جاتے ہیں۔ ہماری عدالتوں میں بیس بیس سال تک کیس لٹکتے رہتے ہیں کچھ دیر کے لیے واپس کراچی ائرپورٹ پر آجائیے، جہازکی روانگی میں صرف اس لیے تاخیرکی جاتی ہے کہ ہمارے سابق وزیر داخلہ نے بھی اسی فلائٹ سے اسلام آباد جانے والوں میںشامل ہونا تھا۔ آپ اپنی اسلامی تاریخ دیکھیے جہاںاحتساب کا عمل ہے، جہاں پروٹوکول نام کی کوئی چیز نہیں، جہاں کوئی وی آئی پی مومنٹ نہیں ہے۔ آپ اسلام کے اس احتسابی نظام کے پیمانے کو دیکھیے جس میں اگر وقت کے ایک بڑے شخص پرہی کوئی بات کیوں نہ آجائے، تاریخ اسلام کے ہیرو اور وقت کے بہترین سپہ سالار پر ہی کیوں نہ آجائے، وہ بھی احتساب سے بچ نہیں سکتا۔یہ تاریخ انسانی کا واحد دور تھا جب سلطنت فاروقی میں کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا تھا۔
Insaaf
انصاف یکساں تھا اور اس انصاف کے قیام کے لیے حضرت عمر خود کو بھی مواخذے کے لیے عوام کے سامنے پیش کردیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی آپ کے دور حکومت میںعام آدمی بھی آپ سے کرتے کا حساب پوچھ لیتا تھا۔یہ اسلامی تاریخ کا وہ سنہری دور تھا جس میں ایک پائی کرپشن اور بدعنوانی نہیں ہوئی تھی۔ یہ تھا اسلام کا حقیقی حسن دنیا نے جس کا عملی طور پر نظارہ کیا اورحیرت زدہ رہ گئی ۔موجودہ دور میںاپنے طرف دیکھیے دنیا ایجادات کرہی ہے،لوگ اپنی معیشت کو بہتر بنارہے ہیں،لانگ ٹرم منصوبے بن رہے ہیں دوسری طرف ہم وی آئی پی پروٹوکولز میں پھنسے ہوئے ہیں اور دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔