دنیا بھر کے استاد سلامت رہیں

Teacher’s Day

Teacher’s Day

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
انور مسعود نے جدہ میں میرے ایک پروگرام میں کہا لفظ بولتے ہیں۔جیسے، استاد محترم،استاد جی، وے استاد، بڑے استاد ایں۔ لیکن آج استاد محترم کی بات کرنی ہے ورنہ اس ملک خداداد میں بڑے استاد ہیں جو ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلنا بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے ہیں جیسے اپنے پانامہ والے استاد۔چلیں چھوڑیں اور آئیں آپ کو اپنے ان اساتذہ کرام سے ملواتے ہیں جن کے بارے میں لکھنے سے پہلے میں نے ایک بار سورة فاتحہ پڑھی اور تین بار سورة اخلاص جو اس جہاں کو چھوڑ گئے اور کالم شروع کیا بس وعدہ کریں کہ کہ آپ یہاں رک گئے ہیں اور آپ نے بھی اس عمل کو دہرا کر اپنے اور میرے استادوں کی روح کو ایصال ثواب بخشا ہے اور جن کے زندہ ہیں انہیں سلام پیش کیا ہے۔

میں نے ہوش سنبھالی تو اپنے آپ کو ایم سی پرائیمری اسکول نمبر ٥ گلی سلکو ملز والی باغبانپورہ گجرانوالہ میں پایا ١٩٦٠ ہی بنتا ہو گا۔اب آپ سمجھتے ہوں گے کہ کیڈٹ کی وردی کیا ہوگی؟ملیشئے کی شلوار قمیض اور اسی بچے ہوئے کپڑے کا بستہ۔لکڑی کی تختی۔قلم دوات۔ہوش کی باتیں دوسری یا تیسری سے شروع ہوتی ہیں۔انہی دنوں ہمیں اسکول میں یونیسف کی طرف سے دودھ پلایا جاتا تھا سوکھے دودھ کو پانی کے حماموں میں پانی میں ملانے کا کام سردارے تنور والے اور یونس جھمکو کے ذمے تھا۔مولوی یوسف صاحب گورے چٹے مصریوں کی طرح انہیں دیکھ کر مجھ جیسے نابغہء روزگا شاگرد کا پائجامہ گیلا ہو جاتا تھا تیری جان کڈی ان کا تکیہ کلام تھا۔ایک اور ہیڈ ماسٹر صاحب تھے خمیدہ کمر بھاری بھر کم جسم ہم لڑکے کہا کرتے کے کدو ماسٹر جب چلتے ہیں تو کیا ڈھونڈتے ہیں؟بہت سوں کا خیال تھا بنٹے۔یہ ہمارے محلے کی دوسری جانب رہتے تھے انہی کے ہمسائے سید طاہر شہباز بھی تھے جو سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ہیں۔

کمال برکت ہوتی ہے عظیم لوگوں کی گلی میں رہنے کے بھی اپنے ہی فائدے ہیں۔کدو ماسٹر انہیں اس لئے کہا گیا کہ انہوں نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ کسی کو ان کے باپ اور ماں کی جانب سے دئے گئے نام کے ساتھے لاحقہ لگا نا ضروری ماں نے یونس نام رکھا موصوف نے یونا جھمکو رکھ دیا۔ویسے بھی بھائی کی آنکھیں وائپر کی طرح چلتی رہتی تھیں۔خالو سردارے دا یہ موصوف کاغذوں میں خالد ولد سردار محمد تھے۔میں اپنا نام بتا کر چھیڑ نہیں بنانا چاہتا ہم چونکہ پہاڑوں سے آئے تھے ہزارہ سے گجرانوالہ ہمیں پہاڑیا کہا جاتا۔اس اسکول میں ہماری کوئی عزت تھی اس لئے کہ اسکول میونسپل کمیٹی کے تحت تھے۔قبلہ والد صاحب بی ڈی ممبر تھے لہذہ چودھری صاحب کا فرزند ہونے کے فائدے بھی سمیٹے۔ماسٹر صاحب نے قسم کھا رکھی تھی کی لڑکے کو مارنا ہی مارنا ہے۔ہماری کلاس میں نوے سے سو تک طلبہ ہوا کرتے تھے فیس ایک آنہ تھی۔ماسٹر جی کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی اور ہم لیکچر کے دوران قلمیں لڑانے میں لگے رہتے تھے سیاہی دوات لانا مشکل کام تھا ڈوبے لینے پر لڑائیاں ہو جاتی تھیں۔

مار کٹائی کی تربیت وہیں سے ملی کڈ گا ل چکھ دال ہورا مکی نالو نال۔چلو اب نئی نسل کو بتا دیتے ہیں کہ اس ایک آنے کو عرف عام میں کیا کہا جائے یعنی ایک روپے میں سولہ آنے ہوا کرتے تھے۔اس آنے کی فیس میں بھی تاخیر ہو جایا کرتی تھی۔ماسٹر غلام رسول صاحب اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت بخشے وہ سزا دینے میں محمود و ایاز کی تمیز نہیں کیا کرتے تھے۔بچے بعض اوقات پوچھتے ہیں ابو جی آپ کو مار پٹتی تھی میں انہیں جواب دیتا ہوں ۔یہ پوچھو کہ کس دن نہیں پٹتی تھی۔ماسٹر غلام رسول کو تو معاف کر دوں گا لیکن ان کے پائوں میں تسمے والے کالے شاہ بوٹ مجھے کہیں مل جائیں تو انہیں میں این جی اوز کے حوالے کر دوں اور کہوں کہ یہ ظالم میری پیٹھ پر ایسے چڑھ دوڑتے تھے جیسے انڈیا کشمیریوں پر۔میں یہ بکواس تو نہیں لکھ سکتا کہ جس طرح فاٹا میں ہماری فوج۔ماسٹر جی تسی بڑے چنگے سو پر تواڈے بوٹ۔آںجناب جب اسکول وزٹ کرتے کلاس میں آ کر پہلا کام کرتے کہ کن پھڑ لئو۔بات یہیں کہیں رکتی تو بات تھی اس کے بعد ٹھڈے مارنے شروع ہو جاتے۔سبق کسی کو یاد ہے کسی کو نہیں لیکن ماسٹر غلام رسول صاحب نے کٹنا ہی کٹنا ہے۔

آج کے دور میں انہیں شدت پسند استاد کہا جائے گا۔لیکن خدا کی قسم ان کی مار نے زندگی میں جو مزے دئے وہ شائد ماں باپ کے پیارسے بھی نہیں ملے۔صرف وہی نہیں تختی پر آقائے نامدارۖ کا نام لکھا تو دھونے کے لئے مولوی یوسف ہمیں قطار اندر قطار بہتے کنوئیں پر لے گئے اور کہاں یہاں پاک اور صاف پانی میں محمدۖ کا نام دھوئیں۔یہ جو احترام میرے اس استاد نے سکھایا شائد یہی وجہ تھی کہ جب قادیانی تحریک چلی تو پیارے نبیۖ کے لئے سڑکوں پر نکلے میرے ساتھ شارع فاطمہ جناح پر نوجوان گولی کھا کر گرا نام محمدۖ نے بچا لیا۔مولوی یوسف پتنگ اڑانے والے بچوں کے ماتھے پر پتنگ باز لکھوا کر مختلف جماعتوں میں گھماتے اگر نالے میں نہاتے پکڑے جاتے تو ماتھ پر مج لکھ دیتے۔

Teacher

Teacher

ہمارے سوئیمنگ پولزاگر ان کا نقشہ کھینچوں تو قارئین اف اف کر اٹھیں گے باغبانپورے کا نالہ جو آخری ایام میں گند ا نالہ بن گیا تھا وہاں سے ہم نے پیراکی سیکھی ہمارے ایک بھائی ہیں چودھری ذوالفقار علی ایک بار ہم سوئیمنگ سے لطف اندوز ہو رہے تھے انہوں نے ہمارے کپڑے اٹھائے اپنے ہرکولیس سائیکل پر رکھے ہمیں دوران واردات پتہ چلا کہ سترپوشی کا کوئی انتظام نہیں رہا تو ان کے پیچھے پیچھے بھاگنا شروع کیا ایسا منظر میں نے یورپ اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں دیکھا۔مولوی یوسف آلو بخارے کی لکڑی کے پھٹیوں پر لڑکوں سے کالا رنگ کرواتے اور بڑے سے سیاہ تختے بن جاتے ان پر اردو کی کتاب سے مشکل الفاظ لے کر ان پر لکھ دیا کرتے اور پوری کلاس کو صبح سویرے پڑھنے کو کہتے ہر دس دن بعد لڑکوں کا رخ موڑ دیا جاتا اور یوں سال کے آخر میں ہر بچے کو ازبر ہو جاتا اللہ کی دین ہے اور مولوی یوسف کے علاوہ استاد محترم حاجی احمد عطا اسکول والے کی محنت کے خاکسار آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ لیتا ہے۔بڑی بات نہ ہو جائے لفظ لکھوں تو زمانہ میرے درشن مانگے۔میرے اساتذہ کی مہربانی ہے۔

مولوی یوسف کے بعد میں ذکر کروں گا حافظ حاجی احمد مرحوم کا جنہوں نے ہمیں اردو پڑھائی موصوف چھفٹ سے نکلتے قد کے جناح کیپ پہنتے تھے سانولہ رنگ تھا اردو پڑھاتے تو آخیر کر دیتے۔ماضی، مضارع، حال ،مستقبل ،امر، نہی فعل کی چھ قسمیں قسم سے آج بھی یاد ہیں۔جماعت میں میں اور نثار بھٹی ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ایک بار میں نے محمد حسین آزاد پر مضمون لکھا جماعت میں داخل ہوئے پڑھنا شروع کیا مجھے پتہ چل گیا پرچہ میرا ہی ہے واہ واہ پر بات ختم کی پوری کلاس سے پوچھا یہ کس نے لکھا ہے لڑکوں نے میرا اور کچھ نے بھٹی کا نام لیا کہنے لگے نئیں چودھریاں دا منڈا نمبر لئے گیا ہے۔م ر راتھر فارسی کے استاد تھے اسکول کے رسالے بزم لوح قلم کے مدیر اعلی بھی تھے میں ١٩٦٦ سے ١٩٧٠ کی بات کر رہا ہوں عطا محمد اسلامیہ اسکول کا قصہ ہے۔

ڈرائینگ کے استاد قدرت اللہ صاحب تھے غضب کے آرٹسٹ تھے نظر چلی گئی مگر اسکول انتظامیہ نے نوکری سے نہیں نکالا۔میری ڈرائینگ میں جو کمزوری ہے ظاہر ہے ایک نابینا یا کم بینا سے خاک استفادہ کرتا ۔ان کی مدد کلاس کا مانیٹر معروف کرتا ظاہر ہے گجرانوالہ میں بچوں کے اصل نام صرف کاغذوں پر ہی ملتے ہیں مثلا میرے ہمسائے جناب حاجی یوسف صاحب کو کلاء کہا جاتا ہے یونس کو یونا سلیم کو سیما جاوید کو جیدا بیچارہ سعید بچا ہے اسے بھی سعیدو کہا جاتا ہے معروفے کو استاد مرحوم اپنے پاس کھڑا کر لیتے۔ایک بار طوطا بنا کر لے جانا تھا میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ سبز رنگ کی پنسل مل جائے لیکن بوجوہ نہیں مل سکی کاپی پر لنگڑا لولہ طوطا تو بنا لیا مگر بے رنگ میں نے بلاوے پر کالی پنسل پھیر دی۔مجھے اس دن کی مار اب بھی یاد آتی ہے تو جھرجھری آ جاتی ہے معروفیا فلاں مک دیا کیہڑا رنگ بھریا سو؟ماسٹر جی کالا۔استاد محترم سے وہ پھول جھڑے ،،،بس کیا لکھوں میں ان کے ہاتھ سے مچھلی کی طرح نکل نکل جاتا لیکن ظالم معروفا اگر آج نظر آئے تو کچھ ملا کر اسے کوکوکولا پلا دوں مجھے آگے کر دیتا۔

استادوں کو اگر اس زمانے میں محاذ جنگ پر بھیج دیا جاتا یا کشتی کرنے تو میڈل لے کر آتے ماں باپ نے بھی انہیں چوڑ کر دیا تھا اے لو بچہ ماس تواڈا تئے ہڈیاں ساڈیاں(یہ لے بچہ چمڑی آپ کی ہڈیاں ہماریں)وہ اس اسٹامپ پیپر کو خوب استعمال کرتے۔لیکن جب امتحان سروں پر ہوتے تو لالٹین کی روشنی میں گھروں میں بغیر فیس کے پڑھایا کرتے ان کو ایک ہی دھن ہوتی تھی کہ عطا محمد اسکول اے ڈی ماڈل سے پیچھے نہ رہ جائے۔

میں اگر دینی استاذہ کی جانب نہ لوٹوں تو زیادتی ہو گی مدرسہ اشرف العلوم میں داخل ہوا پہلے دن ہی دل نہیں لگا نو ماہ تک سلکو مل والے کارخانے کے باہر زمینی مزدوروں کے پاس کھڑا رہا نو ماہ بعد ایک دن والد صاحب نے سورة فاتحہ سنانے کو کہا نہ سنا سکا غصے میں مدرسے لے گئے وہاں جا کر استاد ابراہیم سے گلہ کیا انہوں نے کہا یہ تو سال بھر سے غائب ہے۔میں نے والد صاحب کو کہا اب میں نے یہاں نہیں پڑھنا میں سنیاں دی مسیتے داخل ہو گیا مولانا رحمت اللہ نوری نے بہت پیار سے پڑھایا بڑا مزہ آیا وہیں ترجمہ پڑھا۔میٹرک بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ریلوے روڈ مین داخلہ لیا تو ان استادوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے برداشت کیا ٹیکنالوجی کیا پڑھی سیاست ہی پڑھی کالج اسلامی جمیعت طلبہ ۔انٹر کالجیئٹ مباحثے انتحابات طلبہ تحریکں بنگلہ دیش نا منظور،نظام مصطفی ،ختم نبوت بس یہی مصروفیت رہی۔

فائنل جب وائیوا ہوا تو قاضی صاحب نے کہا لیڈر صاحب بس یہ بتا دو کہ ڈیزل گاڑی کے کون سے پرزے ہین اور پٹرول کے کون سے۔میں نے انہیں کہا قاضی صاحب پاس کر دیں اور کسی اور کو داخلہ دیں ورنہ اگلے سال تک پھر آپ ہی تنگ ہوں گے۔ساری نالائقیاں اپنی جگہ مگر استاد کے جوتے سیدھے کرتا تھا یہ انہی کی دعائیں تھیں کہ اللہ نے دنیا کی سب سے مہنگی گاڑیوں کی کمپنیوں میں اعلی عہدوں تک پہنچایا ایک استاد وہ بھی تھے جو کہا کرتے تھے افتخار صاحب جائیں ہاف سیٹ چائے لے کر آئیں رانا موٹرز میں استاد اسحق جناب صقبے دار صاحب جو خوشنود علی خان کے والد محترم تھے ان کی خدمت کی ١٥٠ روپے ماہوار کا اپرینٹس بارہ لاکھ روپے کی نوکری چھوڑ کر پاکستان پہنچا۔ قلم پکڑی جس کے لئے جناب خوشنود علی خان کا مشکور ہوں جناب ضیاء شاہد جیسے عظیم صحافی نے تعریف کی الطاف حسین قریشی مجیب شامی مجید نظامی نے شاگرد بنایا اور چھاپا ۔ نصیر ہاشمی اطہر ہاشمی روء ف طاہر خالد منہاس نے ہاتھ تھاما جس جس نے سکھایا وہ استاد ہیں جو خوبیاں ہیں وہ میرے استادوں کی وجہ سے ہیں جو نالائقیاں خامیاں ہیں اس میں میرا اپنا قصور ۔دنیا بھر کے استاد سلامت رہیں۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری