تحریر : طارق حسین بٹ شان اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دنیا جمہوری دنیا ہے جس میں عوام الناس شخصی آزادیوں کے متمنی ہیں ۔وہ جبرِ مسلسل سے آزاد ماحول میں اپنی زندگی کی خوشیوں میں رنگ بھرنا چاہتے ہیں ۔آج کی دنیا میں میں آمریت اور مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔طالع آزمائی کے زمانے نہ صرف لدچکے ہیںبلکہ قصہ پارینہ بھی بن چکے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کی انتہا دیکھئے کہ پاکستان میں اب بھی مارشل لائوں کی بات کی جاتی ہے اور ملک کو ان دیکھے جبر کے اندھیروں میں دھکیلنے کاقصد کیا جاتا ہے ۔ہم ابھی تک ذہنی طور پر اتنے بالغ نہیں ہو سکے کہ جمہوری طرزِ حکومت میں اپنا مستقل سنوار سکیں۔اجتماعی سوچ ہمیشہ درست ہوتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زبانِ خلق کو نقارہِ خدا جانئے ۔ ہمارے ہاں اب بھی طالع آزمائوں کو آوازیں دی جاتی ہیں ۔کوئی جوڈیشل مارشل لاء کی ترکیب آزماتا ہے تو کوئی ایمپائر کی انگلی کا انتظار کرتا ہے۔
در اصل دونوں کی منزل ایک ہی ہے کہ کسی طرح سے مقبول لیڈر شپ کو کھڈے لائن لگا کر من پسند نتائج سے من پسند جماعت کے اقتدار کا راستہ صاف کیا جائے۔ہمارے ہاں کی بونی لیڈر شپ ہمہ وقت ملکی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے بے چین رہتی ہے جبکہ عوام ا س پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔ در اصل جن جماعتوں کی عوام میں کوئی ساکھ نہیں ہوتی وہ اسی طرح کے سہارے تلاش کرتی ہیں ۔عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد جو ذاتی نشست کیلئے عمران خان کی بیساکھیوں کے محتاج ہیں آج کل جو ڈیشل ما رشل لاء کے نقیب بنے ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس اقتدار کا کوئی راستہ نہیں بجز اس کے کہ کوئی طلع آزما جمہوری بساط لپیٹ دے اور یوں شیخ صاحب پر قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے ۔ جنرل پرویز مشرف جیسے طالع آزما شیخ صا حب کے ہمیشہ ان داتا رہے ہیں ۔وہ ان کی ہمنوائی اور زیر سر پرستی وفاقی وزیر بنے تھے یا پھر جنرل ضیا الحق کے دستِ راست میاں محمد نواز شریف کے دورِ اقتدار میں وفاقی وزیر بنے تھے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کی مخالفت میں اسی دور کو کرپشن اور دولت سازی کا منبہ قرار دے رہے ہیں جس سے وہ جی بھر کر خود بھی مستفید ہوئے تھے ۔انھیں وزارت کی طلب چین سے بیٹھے نہیں دے رہی کیونکہ انتخابی عمل سے انھیں اپنی وزارت کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ مانگے تانگے کی ایک نشست سے کیا کوئی وزارت ہاتھ آتی ہے؟ ۔شیخ صاحب اقتدار کی ہوس میں د یوانہ وار دہائی دئے جا رہے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی کیونکہ کوئی بھی ان کا ہمنوا بننے کیلئے تیار نہیں ہے۔
انسان بھی کیا نادر شاہکار ہے کہ جس محسن کے کندھے پر سوار ہو کر اپنا کیرئر شروع کرتا ہے ایک دن ذاتی مفاد کی خاطر اپنے اسی محسن کو ڈس لیتا ہے۔ گجرات کے چوہدریوں نے بھی یہی کیا تھا جو شیخ رشید کر رہے ہیں۔وہ بھی جنرل پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کروانا چاہتے تھے ۔ان کی یہی غیر جمہوری روش انھیں لے ڈوبی ۔اب تو حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ہی شہر میں اجنبی بن چکے ہیں جبکہ میاں محمد نواز شریف کی معیت میں ان کی قسمت کا ستارہ نصف النہار پر چمک رہا تھا اور عوام انھیں اپنے مینڈیٹ سے نوازتے تھے ۔عوام کی نگاہ میں ان کی عزت اور وقار تھا کیونکہ وہ جمہوری جدو جہد سے اپنا مقام بنا رہے تھے لیکن جس دن انھوں نے اپنے ہی محسن کے ساتھ بے وفائی کی اور ایک طالع آزما کو اپنا مربی او رہنما بنا لیاعوام کے اذہان سے گر گے۔وہ اپنی بقاء کیلئے دہائی دے رہے ہیں لیکن کوئی ان کی جانب متوجہ نہیں ہو رہا کیونکہ ان کی نیا ڈوب چکی ہے ۔وہ کبھی علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیچھے چھپتے ہیں ، کبھی عمران خان سے مدد طلب کرتے ہیں اور کبھی پی پی پی کا پلو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بسا آرزو کہ خاک شدی کیونکہطالع آزمائوں کا ساتھ دینے والے سارے کرداروں کے ساتھ ایسے ہی ہوتا ہے لیکن ایسے لوگ پھر بھی طالع آزمائوں کی حمائت سے باز نہیں آتے کیونکہ ا ن کے پاس اقتدار کی مسند تک رسائی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ان کی نظر میں طالع آزمائی کا راستہ زیادہ محفوظ اور آسان ہو تا ہے کیونکہ بیٹھے بٹھائے وزارت مل جاتی ہے لہذا وہ طالع آزمائوں کی مونچھ کا بال بنے رہتے ہیں۔،۔
وزاتِ عظمی سے معزولی کے بعد میاں محمد نواز شریف نے ووٹ کے تقدس ،احترام اور عزت کا ایک نیا بیانیہ عوام کی عدالت میں پیش کیا جسے عوام کی بھاری اکثریت ذہنی طور پر قبول کر چکی ہے۔ در اصل ان کی نا اہلی کے بعد ملک کی جو حالت بنتی جا رہی ہے اس کے پیشِ نظر ان کا بیانیہ زیادہ مقبول ہونے کی سمجھ آتی ہے ۔آج ایک ڈالر ١١٥ روپے سے تجاوز کرگیا ہے اور یہ حال دوسرے معاملات کا بھی ہے۔جس گھر کا کوئی لیڈر نہیں ہوتا وہاں پرا بتری ہی ہوا کرتی ہے۔میاں محمد نواز شریف سے لاکھ اختلاف کیا جائے اور ان کا ماضی واقعی ایسا ہے کہ اس سے اختلاف کرنے کی کئی توجیہات ہیںلیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ٢٠١٣ کے انتخابات میں کروڑوں لوگوں کے ووٹ کے حقدادہی قرار پائے تھے ۔کچھ لوگ ان کے مینڈیٹ کو دھاندلی کا شا خسانہ بھی کہتے ہیں لیکن اگر اس نقطہ نظر کو قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی پاکستان کے صفِ اول کے راہنمائوں میں ان کا شمار ہوتا ہے لیکن انھیں جس طرح اقامہ پر نا اہل قرار دیا گیا اس نے ملک کی بنیا دیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی بڑے فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ تو مجبوری کا انتخاب ہیں۔ہمارا خطہ جس طرح کی عالمی سازشوں کا شکار ہے اس میں کسی بڑے قد آور لیڈر کی ضرورت ہے۔یہ درست ہے کہ ہماری فوجی قیات بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے لیکن یہ کام ان کا نہیں بلکہ منتخب وزیرِ اعظم کا ہے۔وہ مشورہ تو دے سکتے ہیں لیکن فیصلہ سازی کی ساری ذمہ داری وزیرِ اعظم کے کندھوں پر آ تی ہے اور موجودہ وزیرِ اعظم کا سٹیٹس بڑے فیصلوں والا نہیں ہے۔
کمال یہ ہوا کہ چند دن قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل مارشل لاء کی در فتنی کے جواب میں ہر قسم کے مارشل لائوں کی نفی کر کے موقع پرست سیاستدانوں کے خواب چکنا چور کر دئے ہیں ۔ ان کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب قوم اس طرح کی درفتنیوں سے انتہائی کنفیوزڈ ہے۔ عوام کوسمجھ نہیں آ رہی کہ آئیندہ چند ماہ میں کیا ہونے والا ہے ۔ کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت کا راگ الاپ رہا ہے، کوئی جوڈیشل مارشل لاء کا رونا رو رہا ہے، کوئی عبوری سیٹ اپ کو دو سالوں تک بر سر مسند دیکھنے کا خواہشمند ہے اور کوئی ایسا سیٹ اپ چاہتا ہے جو میاں محمد نواز شریف کے خلاف معاندانہ کار وائی کر کے ان کی زندگی کومزید اجیرن بنا دے ۔چیف جسٹس کو بھی عوامی جذبات اور ملک کی سنگین صورتِ حال کا احساس ہے لہذا انھوں نے بھی میاں محمد نواز شریف کے بیانیہ کی علی الاعلان حمائت کر دی ہے۔
ان کا یہ کہنا کہ جوڈیشل مارشل لاء کاآئین میں کوئی تصور نہیں ہے اور ملک کا مقدر صرف جمہوریت سے وابستہ ہے جس کی بنیاد ووٹ کا احترام پر ہے ۔ان کا نقطہ نظر میاں محمد نواز شریف کے بیانیہ کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو اس وقت پوری عدلیہ میاں شریف فیملی کے احتساب میں مگن ہے۔میاں محمد نواز شریف بھی احتساب عدالتوں میں پیش ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں جو عدلیہ سے ان کے احترام کی آئینہ دار ہے جبکہ عمران خان اپنے مقدمات میں عدالتی طلبی کے باوجود پیش ہونے سے کتراتے ہیں جس سے ان کے عدلیہ کے بارے میں جذبات و احساسات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس کے ووٹ کے احترام کاجذبہ بجا لیکن کیا وزیرِ اعظم کو اقامہ کی بنیاد پر فارغ کرنا ووٹ کے تقدس ،عزت اور وقار کی علامت ہے ؟ بلیک لاء ڈکشنری کی مدد سے میاں محمد نواز شریف کو نا اہل تو قرار دے دیا گیالیکن اس سے جو پنڈورا بکس کھل چکاہے وہ کسی سے بند نہیں ہو رہا ۔ ہر طرف انارکی اور بے یقینی چھائی ہوئی ہے اور قوم گومگو کی کیفیت میں ہے ۔چیف جسٹس کی یقین دہانی کے باوجود غیر یقینی کے بادل نہیں چھٹ رہے کیونکہ ہماری ستر سالہ تاریخ جس طرح کے متنازعہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے اس کے پیشِ نظر عوام کسی کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔،۔
علامہ اقبال نے اس صورتِ حال کوکئی عشرے قبل اپنے انداز میں بیان کیا ہے ۔ پڑھیے اوروجد میں آ جائے ۔،۔ زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ۔،۔ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے یہ سرور ۔،۔ تیری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نیں
پی پی پی کے ساتھ لاکھ اختلا ف کیا جائے لیکن اس کی جمہوری جدو جہد پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ،جمہوریت میں کرپشن کی کہانیان بھی ہو گی لوٹمار کے افسانے بھی ہوں گے ۔ پارلینٹ کی بالا دستی کے لئے پی پی پی کی ذمہ داری، ثاقب نثار کا اعترافِ جمہوریت،،نواز شریف کا بیانیہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ عمران خان کی ٹیم کی بد دیانتی ور کر دئے ہیں۔ آئیی ترامیم ی ضرورت
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال