تحریر : تنویر اعوان شام میں جاری جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ماضی کے خریف روس اور امریکہ آمنے سامنے آ چکے ہیں۔معاملہ اس وقت سنگین ہوا جب امریکہ نے 6اپریل کو وسطی مغرب میں شامی افواج کے بیس کیمپ پر 59 مزائل داغے۔جس کے بعد روس نے امریکہ سے فضائی معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔روس نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ نے اگرخود کو باز نہ رکھا تو سنگین نتائج کے لئے تیار رہے۔حالانکہ دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف لڑرہے ہیں مگر حقیقت میں یہ جنگ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہے۔ امریکہ اور روس کے شام میں اپنے اپنے مفادات ہیں جن کے لئے وہ یہاں دخل دے رہے ہیں اور شام کو تباہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ نئی جنگ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر شروع ہوئی ہے۔ اب تک یہاں امریکہ اور اس کی ہمنوا طاقتیں سرگرم تھیں مگر اب اس کے بیچ جس طرح روس نے انٹری لی ہے وہ امریکہ کے لئے دردسر سے کم نہیں ہے۔
شام میں روس کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کے درمیان امریکہ نے اسے خبردار کیا ہے اوریہاں مداخلت سے باز رکھنے کی کوشش شروع کردی ہے۔امریکہ کا موقف ہے کہ داعش کے خاتمے کے لئے اس کی قیادت میں چل رہی بین الاقوامی کوششوں میں ماسکو کو مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔امریکی انتباہ کا اعلان وہائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ کی طرف سے کیا گیاہے۔ جوش ارنسٹکے بقول کہ روسی فوج کے زیادہ تر فضائی حملے ان علاقوں میں کئے گئے ہیں جہاں پر آئی ایس آئی ایس کی موجودگی کم ہے یا نہیں کے برابر ہے۔ ’’روسی جانتے ہیں کہ مسئلہ اس وقت ہی حل ہو گا جب شام میں سیاسی تبدیلی آئے گی۔
شامی صدر بشار الاسد نہ صرف ملک کی قیادت کرنے کا اخلاقی حق کھو چکے ہیں بلکہ 80 فیصد عوام کی بھی حمایت گنوا چکے ہیں۔‘‘اس بیچ روسی وزیر دفاع سرگئی شوگو نے کہا ہے کہ چار جنگی جہازوں نے آئی ایس کے 11 ٹھکانوں پر حملہ کیا اور26 میزائلیں داغی گئیں۔سرگئی شوگو کے بقول بحیرہ کیسپیئن سے لمبی دوری کی میزائل کا استعمال کیا گیا۔ ہدف قریب 1500 کلومیٹر دور تھا۔اس حملے میں آئی ایس آئی ایس کے 11 ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیااور دہشت گردوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔اس دوران ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ حملے اتنے تیز ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کئی علاقوں میں کمزور ہو رہایہے۔ روس نے گزشتہ ایک ہفتے میں شام میں موجود دہشت گردوں پر 120 فضائی حملے کئے ہیں،اس کے بعداب روسی نیوی نے آپریشن کی کمان سنبھال لی ہے۔یہ بھی زہن میں رہے کہ شام میں تقریباگزشتہ چار سال سے سول وار جاری ہے۔ وہاں کئی گروپ صدر اسد کی فوج سے لڑ رہے ہیں جنھیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور اس کی طرف سے جنگ جووں کو ہتھیاروتربیت فراہم کی جارہی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ نے بھی شام کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
ایسے میں اسد کے لئے اپنے اقتدار کو بچا پانا کافی مشکل ہو رہا ہے۔ایسے میں اگر روس کی مداخلت کا مقصد اسد کو بچانا ہے تو امریکہ کسی بھی حال میں اسد کی جگہ اپنے کسی پٹھو کولانا چاہتا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں کوئی بھی داعش سے نہیں لڑرہاہے بلکہ دونوں ہی اسد کو ہٹانے اور بچانے کے کھیل میں مصروف ہیں۔حالیہ روس امریکہ کشیدگی ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔امریکہ میں ڈونلڈٹرمپ جیسے صدر کی موجودگی انتہائی خطرناک ہے۔دنیا دو بلاک میں تقسیم نظر آتی ہے۔اس وقت ہمیں روس ،چین اورایران ایک طرف ایک بلاک کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ اوراس کے اتحادی بھی علیحدہ بلاک بنتے نظر آرہے ہیں۔چین گوکہ اس وقت بالکل الگ تھلگ ہے۔لیکن یہاں ماضی کا جائزہ لیں تو پہلی جنگ عظیم سے قبل امریکہ بھی دنیا سے لاتعلق تھا۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ کہ اختتام سے قبل ہی امریکہ نے مداخلت کردی تھی۔اس وقت چین کی صورتحال بھی ایسی ہے۔چین بلامغالبہ ایک عالمی طاقت ہے۔جو کہ معاشی طور پر کسی سپرپاور سے کمی نہیں ہے۔بات بڑھتی ہے تو ممکنہ طور پر چین مداخلت کرے گا۔اگر عرب ممالک کی بات کریں تو ایران دشمنی میں وہ کسی بھی حدتک جانے کو تیار نظر آتے ہیں۔یمن کے معاملے پر سعودی ایران چپقلش نے معاملات کو پیچیدہ بنادیا تھا۔جس کے بعد سے دونوں ممالک میں سخت ترین کشیدگی پائی جاتی ہے۔تمام تر صورتحال میں پاکستان کا کرداربھی اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان کے چین اور سعودی عرب سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔حالیہ دنوں میں روس سے بھی قربتیں بڑھتی نظرآئی ہیں ۔ممکنہ طور پر پاکستان چین اور روس کا ساتھ دے گا۔گو کہ اس وقت پاکستان میں پانامہ کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ہے۔اطلاعات ہیں کہ پانامہ کے فیصلے نے باہر آنے سے انکار کردیا ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ فیصلے کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اگر مقتدر حلقوں نے گارنٹی نہ دی تو فیصلہ سپریم کورٹ سے باہر نہیں آئے گا۔
دوسری طرف جمعیت علماء اسلام کے صدسالہ عالمی اجتماع سے امام کعبہ نے بھی خطاب کیا ہے۔گوکہ امام کعبہ شام کے حالات پر بالکل خاموش دکھائی دئے لیکن امت کے اتحاد پر زور دیتے رہے۔بعدازاں امام کعبہ نے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کا دور بھی کیا۔ہمیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت سعودی عرب کی مکمل حمایت کرتی نظرآتی ہیں۔شاید امام کعبہ اپنے ہمراہ خاص تبرک لائے تھے۔جس کے بعد حرمین شریفین کی حفاظت کاجزبہ جاگنا یقینی ہوناتھا۔حال ہی میں کلبھوشن یادیو کو بھی پھانسی دے دی گئی ہے۔یہ وہی کلبھوشن ہے جو “را”کا حاضر سروس افسر تھا۔شنید ہے کہ بھارت نے پھانسی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔سشما سوراج کہتیں ہیں کہ پاکستان نے فیصلے پر عمل کیا تو سخت نتائج کے لئے تیار رہے۔بین الاقوامی پنڈت بتاتے ہیں کہ معاملات خرابی کی طرف جارہے ہیں۔اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو دنیا میں تیسری جنگ عظیم کے امکانات میں مزید بڑھ جائیں گے۔گوکہ اس وقت جنگ کا مرکز شام ہے۔لیکن اکثرمسلم ممالک میں جنگ کی کیفیت طاری ہے۔پاکستان ایسا ملک گزشتہ دوعشروں سے حالت جنگ میں ہے۔ہم کئی بار دشمنوں کی کمر توڑ چکے ہیں۔لیکن ہر بار کم جُڑ جاتی ہے۔
شاید دہشت گرد صمد بانڈ کے ذریعے ایسا کرتے ہیں۔لیکن تیزی سے بدلتی صورتحال نے دہشت گردوں کو پاکستان کے بجائے شام جانے پر مجبور کردیا ہے ۔شام میں درجنوں گروپ برسرپیکار ہیں۔کون کس کے خلاف لڑرہا ہے۔یہ خود لڑنے والے بھی نہیں جانتے۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق مرنے والوں کا تعلق اسلام سے ہے۔دوسری جانب مارنے والوں میں بھی اکثر مسلمان ہیں۔روس اور امریکہ کا تنازعہ شاید حل نہ ہو۔روس اپنے پرانے زخم نہیں بھولا ہے۔لیکن اگر سرزمین شام سے تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو پھر مسلم دنیا محفوظ نہیں رہے گی۔
دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہے۔پاکستان کی دوبڑی مذہبی قوتیں جو لاکھوں لوگ جمع کرنے کا عملی مظاہرہ کرچکی ہیں۔ان کے قائدین سعودی عرب کو اپنا ان داتا مانتے ہیں۔سعودی عرب ایران کے خلاف ہے۔روس ایران اور چین ایک ساتھ ہیں۔اگر ریاست پاکستان امریکہ کے خلاف جاتی ہے تو اندرون خانہ لاکھوں لوگ اس کے خلاف احتجاج کرسکتے ہیں۔مجموعی طور پر ہم بند گلی میں کھڑے ہیں۔دیکھنا ہے کہ پانامہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔جس کے بعد ہی پاکستان کے کردار کا تعین ہو سکے گا۔