لاہور (جیوڈیسک) دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کی طرف سے اس دن کو خواتین میں تشدد کے خلاف آگہی پیدا کرنے کے لیے مقرر کیا گیا، پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں دس ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
25 سالہ نائلہ جس کی عمر صرف 13 برس تھی جب تیزاب سے اس کا چہرہ جھلسا دیا گیا۔ نائلہ کا جرم اپنے سے کئی گنا بڑے شخص سے شادی سے انکار ٹھہرا، بدلے میں سفاک شخص نے زندگی میں ہی اندھیرے بھر دئیے۔
دوسری طرف تہمینہ کی شادی تو ہوئی لیکن یہاں شادی کرنا عورت کا جرم بن گیا ابھی مہندی کے رنگ بھی پھیکے نہ پڑے تھے کہ شوہر نےتیزاب پھینک دیا۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ مگر نجانے کیوں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رنگ پھیکے پڑنے لگے ہیں رواں سال بلوچستان میں خواتین پر تشدد کے 74 واقعات رونما ہوئے مگر ان ہولناک واقعات کا شکار حوا کی بیٹیاں آج بھی انصاف کی منتظر ہیں۔
بلوچستان میں رواں سال غیرت کے نام پر 30 خواتین کو ابدی نیند سلا دیا گیا دیگر واقعات میں 19 خواتین قتل جبکہ 18 زخمی ہوئیں، تیزاب کا ایک اور خود کشی کے تین کیسسز رجسٹرڈ ہوئے۔ 15 مئی کو محبت میں ناکامی سے خوف زدہ وجے 18 سالہ رمشا کو تیزاب سے جھلسا کر فرار ہو گیا جبکہ 2011 میں درس و تدریس سے وابستہ چار خواتین پر تیزاب پھنکنے والا تا حال قانون کی گرفت سے باہر ہے اور ایسے میں غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات باعث تشویش ہیں۔
معاشرے کا یہ نصف حصہ تعلیم ،زراعت اور دستکاری سے منسلک ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں سرگرم ہیں مگر خود ان کی بہتری تحفظ اور احترام کا خواب نجانے کب شرمندہ تعیبر ہو گا۔
غیر سرکاری تنظم کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال 10 ہزار سے زائد خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سماجی ماہرین کے مطابق عورتوں پر تشدد کی روک تھام معاشرتی رویوں میں تبدیلی اور خواتین میں حقوق سے متعلق آگاہی سے ہی ممکن ہے۔